لاپتہ ذاکر مجید بلوچ کی عدم بازیابی کیخلاف لواحقین کی کال پر کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی طویل جبری گمشدگی کے خلاف انکے اہلخانہ کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی سے کوئٹہ پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جبکہ اس دؤران سیاسی و طلباء تنظیموں کے ارکان سمیت دیگر لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی شریک تھے-
ذاکر مجید بلوچ طلباء کی سب سے زیادہ متحرک اور آزادی پسند تنظیم بی ایس او آزاد کے وائس چئیرمین تھیں جنہیں سال 2009 میں بلوچستان کے شہر مستونگ سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دوران سفر جبری لاپتہ کیا جو چودہ سال بعد بھی منظرعام پر نہیں آسکے ہیں-
کوئٹہ احتجاج سے گفتگو کرتے ہوئے ذاکر مجید کے والدہ کا کہنا تھا کہ اس چودہ سالہ طویل عرصے میں اپنے بیٹے کے لئے دنیا کو آواز دیتی رہی ہوں، پاکستانی اداروں سے بیٹے کی بازیابی کا مطالبہ کیا لیکن اس تمام دؤرانیہ میں ریاست نے ہماری تمام فریادوں کو نظرانداز کیا اور احتجاجوں پر بھی پابندی لگائی گئی-
انہوں نے کہا میرا بیٹا ایک سیاسی شخص تھا جو ہمیشہ سرفیس پر رہ کر اپنی قوم کی بات کرتا تھا اس کے علاوہ میرے بیٹے نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ میں پاکستانی حکومت اور عدلیہ سے اپیل کرتی ہوں کہ اگر میرے بیٹے نے کوئی گناہ کیا ہے تو اسے اپنے عدالتوں میں پیش کرکے قانونی کارروائی کرے اور اس چودہ سالہ انتظار کے اذیت سے مجھے نجات دلائے۔
کوئٹہ احتجاج سے گفتگو کے دؤران ذاکر مجید کی والدہ آبدیدہ ہوگئے جبکہ انکا مطالبہ یہی تھا کہ بیٹے کو بازیاب کرکے انھیں انصاف فراہم کیا جائے-
کوئٹہ احتجاج سے گفتگو میں دیگر مظاہرین کا کہنا تھا ذاکر مجید بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنان جنھیں سالوں سے زندانوں میں قید رکھا گیا ہے وہ بھی کسی کے بچے، کسی بہن کے بھائی اور بچے کے والد ہیں۔ فلسطین پر رونے والے پاکستانی کبھی اپنی نظر کرم بلوچستان پر بھی کریں تو انھیں کشمیر اور فلسطین جیسے حالات انکے اپنے بغل میں ملینگے-
کوئٹہ مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ آئے روز بلوچ مائیں سڑکوں پر احتجاج کرکے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن عجیب ملک ہے جہاں انصاف کے لئے احتجاج کرنا پڑتا ہے اور پھر ملک کا وزیر اعظم ٹی وی پر بیٹھ کر جھوٹ بولتا ہے کہ لاپتہ افراد وجود نہیں رکھتے اگر لاپتہ افراد وجود نہیں رکھتے تو آکر یہی بات لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو بتائیں اور بتائیں انکے پیارے کہاں ہیں-
مظاہرین نے کہا کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے واقعات نے ایک انسانی بحران پیدا کیا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان سے جبری گمشدگیاں ختم کرکے لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے-