خدشہ ہے ہمارے بچوں کو دوسرے رشتہ داروں کی طرح جعلی مقابلے یں قتل نہ کیا جائے۔ لواحقین

150

بلوچستان کے ضلع خاران سے دو دن قبل فورسز نے وڈھ ایریا میں رات کے دو بجے چھاپہ مار کر دو نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا۔

جبری گمشدگی کے شکار عبدالقدیر و صلاالدین کے لواحقین نے میڈیا میں بیان دیتے یوئے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ریاستی فورسز ایف سی و سی ٹی ڈی کسی جعلی مقابلے میں قتل نہ کرے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مہینے پہلے گواش کے کلی دادوزئی کے رہائشی صلاح الدین ولد ظفر علی کو ایف سی نے اٹھایا جو صرف ایک مزدور کار تھا محنت مزوری کر کے گھر چلاتا تھا اسکے اٹھانے کے بعد ہم نے ہر در اور دروازے پر دستک دے دیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا انہوں نے اسکے بازیابی کا جھوٹا دلاسہ دے کر گھر والوں کو خاموش کروایا ، لیکن کچھ دن بعد اس معصوم کا لاش ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ لاش کو روڈ پر پھینکنے کے بعد ایف سی نے صلاح الدین کو ایک مظلوم کہتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کر کے معافی مانگا ۔

اسی طرح دو دن قبل وڈھ ایریا نزد مومن شاہ مسجد کے قریب ایف سی کے ہاتھوں اغواء ہوئے قدیر بلوچ جسکی عمر 13 سال اور صلا الدین ولد محمد خان جسکی عمر 14 سال ہے وہ بھی بھی اسی غریب فیملی سےتعلق رکھتے ہیں جن کا عمر پڑھنے کا ہے لیکن بد قسمتی سے تعلم کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کم عمری میں مزدوری کرتے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کئی واقعات بلوچستان میں پیش آئے ہیں جس میں کم عمر بچوں کو ریاستی ادارے پولیس سی ٹی ڈی اور ایف سی والے اٹھا کر ان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزام لگاکر انہیں اپنے ٹارچر سیلوں میں ازیت دے کر وہ درد برداشت نہ کرنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ شفقت بلوچ کے ساتھ بھی یہی ہوا جو ایک سال سے ریاستی جیلوں میں ذلیل ہے ہم اپنے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کمسن قدیر بلوچ اور صلاح الدین کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائے۔