سکیورٹی ذرائع کے مطابق گذشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان ضلع میں عسکریت پسندوں نے ایک اور حملہ کیا لیکن اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران سکیورٹی فورسز پر یہ چوتھا حملہ تھا۔
پولیس کے مطابق عسکریت پسندوں نے گزشتہ رات بھاری ہتھیاروں سے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کردیا۔ پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک فائرنگ ہوتی رہی، جس کے بعد عسکریت پسند فرار ہوگئے۔ اس حملے میں ایک کانسٹبل زخمی ہو گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ کا محاصرہ کرلیا گیا ہے اور مشتبہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ تین روز کے دوران پاکستانی صوبوں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بڑے حملے کیے جا چکے ہیں جن میں 17 فوجی اور 5 عام شہری بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ تقریباً 24 افراد زخمی ہوئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے، جوابی کارروائی میں سکیورٹی اہلکاروں نے 10 حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
‘حملوں میں دو پڑوسی ملکوں کا ہاتھ’
عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کے مختلف حصوں میں حالیہ دنوں میں حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان تازہ واقعات کے بعد بلوچستان حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان دہشت گرد حملوں کے پیچھے دو پڑوسی ملکوں کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ پاکستان کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو “دونوں طرف سے” حملوں کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کو کچل دینے کا ریاست کا عزم کمزور نہیں ہوگا۔
انہو ں نے دعویٰ کیا کہ ژوب حملے میں ہلاک ہونے والے چھ عسکریت پسندوں کے پاس سے سکیورٹی فورسز نے افغان شناختی کارڈ دستیاب کیے تھے۔
جان اچکزئی نے الزام لگایا کہ بھارت خطے میں بدامنی پھیلا رہا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی را “پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔”