چُک اِیں بلوچانی:
بلوچ قبیلہ سے لے کر قومی تشکیل تک ، ایک مطالعاتی تبصرہ : تیسراحصہ
تحریر: قاضی داد محمدریحان
دوسراحصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں بلوچ قبیلہ سے لے کر قومی تشکیل تک، ایک مطالعاتی تبصرہ – دوسرا حصہ
بلوچ قومی شناخت کی قدامت
سیدھاشمی کے اس واضح دعوی کو نہ جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو اسی طرح قبول کرنا ممکن ہے جس طرح سیدہاشمی فرماتے ہیں ۔ کیوں کہ مورخین نے ایرانی تاریخ کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی بنیاد پر ہم تمام ادوار کو تاریخی واقعات اور سلسلہ حکومتوں کے ذریعے کڑی در کڑی پیوست کرکے ایک زنجیر کی صورت دے سکتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں وہ تمام رشتوں کی تفصیل دینا ممکن نہیں جو اس عظیم سلسلہ حکومت کی تشکیل کا باعث بنےلیکن آغاز کے بارے میں بات کرکے ہم کئی خیالی دعووں کو جھٹلانے کے قریب پہنچ سکتے یا ان کی درستگی کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔ ھخامنش ایک شخص کا نام ہے جو ۷۰۵ قبل مسیح میں پید اہوئے تھے(۵) ۔ وہ اُس زمانے کی ’پارسی قوم‘ کے طائفے’ پاسارگادیان‘ کے سردار تھے ۔ انہیں ایران کے پہلے بادشاہ کہلانے والے ’ڈیھاکو‘نے ذمہ داری سونپی ، آشوریوں پر حملہ کرنے والے ایرانی سپاہیوں کا کمان بھی ھخامنش کے سپرد تھا ۔ فارسی میں ڈیھاکو ’ دیاکو ‘ کہلائے جاتے ہیں، جنہوں نے ایران کے غربی علاقوں میں’ ماد سلسلہ حکومت ‘کی بنیا د رکھی ۔ ان کے نام کے معنی’ سرزمین ‘ہے (۶) مروجہ بلوچی میں بھی’ ڈیھ ‘ملک اور سرزمین کو کہتے ہیں ۔ یونانی دستاویز کے مطابق پارسی قوم اس زمانے میں دس قبیلوں یا طائفوں میں تقسیم تھی جن میں چھ قبیلے مستقل آبادیوں میں رہتے تھے اور چاربنجارے تھے جنہیں بلوچی میں ’گدانی ‘ کہا جاتا ہے ۔ گدانی قبیلوں میں دائیان ، مردان ، دروپیکان اور ساگارتیان شامل تھے ۔ان ناموں کو فارسی میں بالترتیب دائی ھا،مرد ھا،دروپیک ھا اور ساگارتی ھا لکھا گیا ہے ،’ ھا ‘ فارسی زبان کے دستور میں حروف جمع ہے جو بلوچی میں’ان ‘ ہے ۔ شہری قبیلوں میں پاسارگادیان ،مرفیان ،ماسپیان ،پانتالیان ،دروسیان اورگرمانیان تھے ، واضح رہے کہ آخرالذکر نام فارسی میں بھی اسی طرح لکھے گئے ہیں ۔ ان میں پاسارگادیان سب سے اہم قبیلہ تھا (۷) ، جس کی حمایت سے ’کوروش‘ نے ۵۵۰ قبل مسیح میں’ ھخامنشی ‘ سلسلہ حکومت کی بنیاد رکھی جو ۳۳۰ قبل مسیح (دوسوبیس سال) تک قائم رہی(۸) ، جنہیں سیدھاشمی ایک بلوچ قبیلہ قرار دے چکے ہیں ۔
بلوچوں اور کردوں میں یہ دلچسپ مشابہت بھی پائی جاتی ہے کہ دونوں اپنی قومی اور وطنی قدامت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ۔ بلوچ اور کردوں کے رشتوں کا تاریخ کے آئینے میں مطالعہ کریں یا لسانی بنیادوں پر پرکھیں دونوں ایک ہی درخت کی دو الگ سمت نمو پانے والی شاخیں معلوم ہوتی ہیں مگرشاھنامہ فردوسی میں کرد قوم کا کوئی ذکر نہیں ۔ بلوچ لکھاری اور قوم دوست اپنی تاریخ کو پانچ ھزار سال قدیم بتاتے ہیں اسی طرح کرد چھ ہزار سالہ قدامت کا دعوی کرتے ہیں ۔جس طرح سیدھاشمی نے مکمل یقین کے ساتھ بلوچوں کو ‘ھخامنش‘کی اولاد قرار دیا ہے کرد بھی خود کو اتنے ہی وثوق سے ماد کی اولاد قرار دیتے ہیں ۔ کردوں کے متفقہ قومی ترانہ ’اے رقیب ‘ میں کہاجاتا ہے :’ایمی رولّی میدیا و کیخسرویم‘ (کردی رسم الخط: ئیمه ڕووڵهێ میدیا و کهێخهسرهویم)، یعنی ہم ماد اور کیخسرو کی اولاد ہیں ۔
ھخامنش کے بارے میں جس طرح لکھا ہے کہ وہ خودپارس قوم کے پاسارگادیان قبیلے کے سربراہ تھے اور ان کے زمانے کو ’دوہزار سات سوتئیس‘ سال ہوچکے ہیں ، ماد سلسلہ حکومت کی بنیاد بھی اسی زمانے میں رکھی گئی یعنی بلوچوں کی بحیثیت قوم پانچ ھزار سالہ قدامت کا دعوی درست نہیں ۔ کوروش اور ھخامنش بلوچوں کے اجداد ضرور تھے لیکن ھخامنش سے صرف بلوچوں کی نسلی نسبت نہیں ۔البتہ اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بلوچ ایک ایرانی النسل قوم ہے ۔ امریکی کانگریس لائبریری کے مئی دوہزار آٹھ میں جاری کردہ ایک دستاویز کے مطابق موجودہ ایران میں دوفیصد افراد بلوچی بولتے ہیں(۹)لیکن ایرانی زبانوں میں بلوچی زبان فارسی اور کردی کی بعد تیسری بڑی زبان ہے ۔ قدامت کے لحاظ سے بلوچی کو ایرانی زبانوں پر فوقیت حاصل ہے جس کے روزمرہ کی زبان میں استعمال ہونے والے کثیرالفاظ آج بھی اسی تلفظ میں بولتے جاتے ہیں جو پھلوی میں بولے جاتے تھے ۔ اسی طرح اوستائی الفاظ بھی اپنی درست شکل یا صحیح معنوں میں بولے جارہے ہیں ۔ موجودہ فارسی اور اُردو کے کئی ترکیبات بھی بلوچی زبان کے قواعد سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ گلستان ، بوستان ،گلدان ،ماھتاب ، دانش سرا، آب انبار اور بزدل جیسے تراکیب لفظی ’جدیدفارسی‘ کے اصول کے برعکس ہیں کیوں کہ فارسی ترکیب سازی میں’ موصوف‘ پہلے اور’ صفت ‘بعد میں آتا ہے جب کہ بلوچی میں صفت پہلے اور موصف بعد میں آتا ہے ۔ مثال کے طور پرفارسی میں ’کاسہ سر‘(کھوپٹری) کو بلوچی میں ’ سر ءِ کاسگ ‘ کہتے ہیں ۔ تاریخ کی کتابوں میں کردار اور جگہوں کے ناموں کے جومعنی اور تلفظ درج ہیں ، موجودہ بلوچی میں اسی تلفظ یا قریب ترین تلفظ میں بولے جارہے ہیں ۔ جیسا کہ ایران کے پہلے بادشاہ ’ ڈیھاکو ‘ کا نام ہے ۔ یا مزدسینا کے پیغمبر’ زرتشت اسپتمان‘ کا نام ہے، زرد اُونٹ والے ، سفید رنگت کے ۔ پھلوی زبان بھی دراصل کوئی الگ زبان نہ تھی بلکہ درمیانی زمانے کی فارسی کو ہی پھلوی کہاجاتا ہے ،پھلوی ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں بولی جاتی تھی اور اسے ُ ’پارسیگ‘ (ف کے ساتھ نہیں ) کہتے تھے۔ (۱۰)
بلوچی زبان کے محقق پروفیسر صبادشتیاری(شھید) بلوچی کو فارسی زبان سے قدیم قرار دیتے تھے ۔ ان کے الفاظ میں : بلوچی زبان پھلوی زبان کی بہن اور اوستائی زبان کی بیٹی ہے جب کہ فارسی اوستائی زبان کی نواسی ہے ۔ ‘
موجودہ علم اور آگاہی کی روشنی میں درست طور پر ان سوالات کا جواب دینا کہ ’بلوچ‘ایک الگ قبیلے کی صورت کب کہاں اورکیسے وجود میں آیا ، ممکن نہیں ۔ بلوچوں کا ذکر’سیاوش اور افراسیاب ‘ کے زمانے میں کیا جاتا ہے لیکن خود ان کرداروں کا درجہ اساطیری ہے نا کہ تاریخی ۔ محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ دوہزار چھ سو سال پہلے اس وقت جب بڑی ایرانی بادشاہتیں وجود میں آچکی تھیں ،بلوچ قبیلے کا ظہور ہوا ہوگا۔ لیکن بلوچ قوم کی الگ قومی تشکیل ، مزدک کے قتل بعد ہوئی ۔
چند بلوچ لکھاریوں کا خیال ہے کہ مزدک بلوچ تھے جس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہاں البتہ ایسے شواہد دستیاب ہیں کہ مزدک اور مزدکیوں کے قاتل انوشگ روان نے بادشاہ بننے کے بعد بلوچوں کے خلاف جارحانہ لشکر کشی کی ۔ دراصل زرتشی موبد(مذہبی پیشوا) مزدک کے خیالات کو” آئین زرتشت ” کے خلاف سمجھتے تھے ۔ موجودہ زمانے کی اصطلاح میں ان کے نزدیک مزدک ایک جھوٹے پیغمبر تھے اس لیے ان کا بیدردی کے ساتھ قتل کیا گیا ۔
مزدک خود بھی زرتشی موبد تھے لیکن انہوں نے دیگر موبدوں کے خیالات سے واضح اختلاف رکھا ۔انہوں نے ظاہری عبادت پر نیک کردار کو ترجیح دی ۔ وہ کثیرازدواجی کے خلاف اور طبقاتی تقسیم کو رد کرتے تھے(۱۱) جو زرتشی موبدوں کے نزدیک آئین مزدسینا میں تحریف کے مترادف تھا۔ شاھنامہ فردوسی میں مزد ک اورکَوات کاداستان تفصیل سے لکھا گیا ہے ۔
انوشگ روان بیسویں ساسانی بادشاہ ’کَوات‘(فارسی :قباد)کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ۔ کوات کے زمانے میں ہی مزدک نے ان کی قربت حاصل کرکے انہیں معاشرتی اصلاح کے لیے راضی کیا ۔اس زمانے میں زرتشتی موبد طاقتور تھے اورمزدسینا کو ریاستی مذہب کا درجہ حاصل تھا ۔ زرتشتی موبد مزدک کے خیالات کو بدعت سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے بادشاہ کو تخت سے اُتار کرقید کردیا اور ان کے بھائی جاماسپ کو بادشاہ بنادیا ۔ کوات کسی طرح قید سے فرار ہوکر دوبارہ تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن بعد میں انہوں نے مزدکیوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیے ۔ان ہی کے بادشاہت کے آخری ادوار میں مزدکیوں کو بڑی بیدردی سے قتل کیا گیا ۔ شاھنامہ فردوسی کے مطابق تین ہزار مزدکیوں کو سر کے بل زندہ قبر میں گاڑھ دیا گیا ۔ کہاجاتاہے کہ ایک دن میں بارہ ہزار مزدکی قتل کیے گیے اور خود مزدک کو بھی کمانچیوں نے تیر مار کر قتل کردیا ۔
کوات کے بعد تخت کا قانونی وارث” کاوس “تھا لیکن چوں کہ وہ مزدک کے پیروکار تھے اس لیے موبد اِن کی بادشاہت کی راہ رمیں رکاوٹ بن گئے اور اس کے چھوٹے بھائی کسری انوشگ روان کو بادشاہ بنا دیا جو مزدکیوں کے کٹر مخالف تھے ۔ بعد ازاں بھی کاوس نے تخت پر دعوی جتایا لیکن انوشگ روان سے شکست کھاگئے بعد ازاں اسے گرفتار کرکے تیسپو ن (موجودہ عراق کا علاقہ) لے جایا گیا ۔ وہاں اس کے سامنے دوراستے رکھے گئے کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرلے یا پھر موت قبول کرلے ۔ کاوس نے خود کو گناہکار تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مارے گئے ۔ (۱۱)
مزدک کے عروج کے زمانے میں مزدکیوں کا ایک تنظیمی ڈھانچہ تشکیل پاچکا تھا جس کی بنیاد پر وہ انوشگ روان کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرسکے ۔ اسی تنظیم نے آگے جاکر بلوچ قوم کی صورت نیا سیاسی اتحادیہ بنالیا ۔ پہلے ایک منظم قبیلے کی صورت ایران کی مرکزی حکومت پر بلوچوں کے اثرات تھے لیکن ان کے پاس کوئی الگ سیاسی نظریہ نہیں تھا تھا ۔ مزدک نے بلوچوں کو آئین مزدکی دے کربیک وقت ایک جداگانہ سیاسی اور مذہبی نظریہ دیا جس سے ساسانی حکمرانوں کے درمیان خانہ جنگی ہوئی ۔ اس جنگ کی شروع میں یہ دو الگ قوموں کی لڑائی نہیں تھی بلکہ اقتدار کے لیے خانگی رسہ کشی تھی ۔ جیسا کہ ’کوات ‘اور خود مزدک زرتشتی تھے لیکن انہوں نے موبدوں کی تعلیمات کو مسترد کردیا ۔ کاوس نے جو کہ کسری انوشگ روان کا بھائی تھا مزدکی آئین اختیار کی اور اسی پر رہتے ہوئے اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ کاوس اور مزدک کے قتل کے بعد بلوچ مزدکیوں کا غیرمزدکی پارسیوں کے ساتھ شریک اقتداررہنا ممکن نہ رہا ۔ اس لیے انہوں نے کسری کی بادشاہت کی سرحدوں سے باہر ایران کی شمال مغربی سمت نئی آبادیاں بسائیں اور منظم ہونے لگے ۔ بلوچ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے دوسرے مزدکی قبیلوں کو اپنے اندر ضم کرتے گئے بالآخر’ بلوچ ‘ نام ہی ان کا قومی اور مذہبی حوالہ بن گیا ۔ 537ء کو کاوس کاقتل کا کیا گیا تو ممکنہ طور 600ء تک بلوچ قومی تشکیل مکمل ہوئی ہوگی ۔ یعنی جداگانہ بلوچ قومی تشخص کو اس سال کرہ ارض پر ایک ہزار چارسو اٹھارہ سال مکمل ہوچکے ہیں ۔ ایک قبیلے سے ایک قوم کا سفر بلوچوں نے لگ بھگ ایک ہزار ایک سو بیاسی سال میں طے کیا ۔
حوالہ جات:
۵۔ رضایی ، دکترعبدالعظیم ،تاریخ دہ ھزار سالہ ایران ، تھران ، چاپ ۱۶،۱۳۸۴، جلداول۔
۲۔ خالقی مطلق ، جلال ؛ مقالہ ،ھوشنگ و دیاکو،مجلہ ایران شناسی ، سال ھشتم ،پایز۱۳۷۵ خورشیدی،شمارہ ۳،صفحات:۴۷۳ تا۴۷۹۔
۷۔ فرہ وشی ،بھرام،ایران ویج،چاپ دوم،تھران،۱۳۷۹خورشیدی،صفحہ:۲۶
۸۔ دندامایف،محمد،آ،تاریخ سیاسی ھخامنشیان،ترجمہ:خشایاربھاری،چاپ۱،تھران:نشرکارنگ،۱۳۸۱۔
۹۔Library of Congress 150 Federal Research Division,Country Profile: Iran, May 2008
http://www.webcitation.org/67SYFTQPM
۱۰۔ بزرگمھر،لقمان،’’پارسی گویان باستان زبان خویش راچِہ می نامیدند‘‘ سائٹ:http://www.loghman.org/
۱۱۔ Kavad’s Heresy and Mazdak’s revolt ,by Partica Crone, University of Cambridge
https://www.hs.ias.edu/files/Crone_Articles/Crone_Mazdak.pdf