بھارت،مشرق وسطی، یورپ اقتصادی راہداری کے لئے اسرائیل حماس تنازعہ کتنا بڑا چیلنج ہے؟

233

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تشدد نے بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ تک ایک نیا تجارتی راستہ بنانے کےایک بڑے اقدام کو درپیش چیلنجوں کو نمایاں کر دیا ہے۔

گزشتہ ماہ بھارت میں منعقدگروپ آف 20 سربراہی اجلاس میں اعلان کئےجانے والے، انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ اکنامک کوریڈور یا IMEC، کو جدید دور کے “اسپائس روٹ” اور چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے امریکہ، یورپی یونین اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم مودی نے اس کا مقابلہ شاہراہ ریشم سے کرتے ہوئے جی۔ 20 سربراہی اجلاس کے شرکا کو بتایا تھا کہ یہ کس طرح ملکوں کو قریب لائے گا اور وسیع تر معاشی فوائد کو جنم دے گا۔

اس راہداری کا مقصد متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن کو بحیرہ روم میں اسرائیلی بندرگاہ حائفہ سے جوڑنے والا ریل اور شپنگ نیٹ ورک قائم کرنا ہے۔ اس کے بعد نہر سویز کو نظرانداز کرتے ہوئے سامان یورپ بھیجا جاسکتا تھا۔

لیکن جب سے اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں غزہ پر ملٹری کارروائیاں کی ہیں، یہ خطہ عدم استحکام کی لپیٹ میں آ گیا ہے کیونکہ اس تنازعہ نے غزہ کی پانچ جنگوں میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز لڑائی کی شکل اختیار کر لی ہے۔

نئی دہلی میں” کالنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پیسیفک اسٹڈیز ” کے بانی چنتامنی مہاپاترا کے مطابق، “اب ہمیں اس جنگ کے وسیع علاقے میں پھیلنے کے امکان کا سامنا ہے اور یہ IMEC کے لیے”حقیقت کے ادراک” کا وقت ہے۔” بقول ان کے، “اس تنازعہ کے درمیان، IMEC کا پورا تصور ہی ختم ہو رہا ہے۔”

‘ویک اپ کال‘

“اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ اس منصوبے میں مشرق وسطیٰ کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطوں سے گزرنا شامل ہے، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ جنگ IMEC کو درپیش چیلنجوں کے پیمانے کے بارے میں چوکنا ہونےکی کال ہے۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے وی او اے کو ای میل کے ذریعے اپنے تبصرے میں کہا، “نئی جنگ اس بات کی ایک المناک یاد دہانی ہے کہ نئے کوریڈور کو بنانا کتنا مشکل ہوگا۔”

انہوں نے کہا “یہ صرف مالیاتی چیلنجوں کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ استحکام اور سفارتی تعاون کا بھی ہے۔ جنگ نے تکلیف دہ طور پر یہ واضح کیا ہے کہ حالات اب بھی دشوار گزار ہیں۔

جب اس منصوبے کا اعلان کیا گیا، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے واشنگٹن کا دباؤ بڑھ رہا تھا اور امیدیں تھیں کہ یہ مشرق وسطیٰ کی دیرینہ دشمنیوں کو تبدیل کرسکتا ہے۔

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قابل اعتماد رابطہ اس منصوبے کا ایک اہم عنصر ہے۔

اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ امریکہ کی ثالثی میں “ابراہم معاہدے” کی پیروی کرے گا جس کے تحت اسرائیل نے 2020 میں تین عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اس منصوبے پر اس خیال کے تحت کام کیا گیا کہ خطے میں امن اور استحکام آئے گا۔

نئی دہلی میں” آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن” کے ممتاز فیلو منوج جوشی کے مطابق، “اس منصوبے پر اس مفروضے کے تحت کام کیا گیا تھا کہ خطے میں امن اور استحکام آئے گا۔ لیکن یہاں تک کہ اگر آنے والے دنوں اور مہینوں میں کوئی وسیع تر تنازعہ نہیں ہے، تو بھی مستقبل اب غیر یقینی ہے۔”

انہوں نے نشاندہی کی کہ اس منصوبے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ “اس میں دو سے تین ہزار کلومیٹر ریلوے لائنیں بنانا شامل ہے۔ خطہ اب سیاسی عدم استحکام میں ڈوبا ہوا ہے، سوال یہ ہے کہ کون سرمایہ کاری کرے گا؟

‘چین کا مقابلہ’

مغربی حمایت یافتہ راہداری کا تصور محض تجارتی راستے کے طور پر نہیں کیا گیا تھا – تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے جیو پولیٹیکل مقاصد تھے۔

اسے چین کے مقابلے کے طور پر دیکھا گیا، جس کا مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ کوگل مین کے مطابق اس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اعتماد اور سیاسی سرمایہ پیدا کرنا تھا۔

لیکن انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو فی الوقت “کولڈ آئس” پر ڈال دیا گیا ہے، حالانکہ اسے آگے جاکر دوبارہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ “سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مضبوط اسٹریٹجک ضرورتیں ہیں، لیکن کوگل مین کے مطابق “ریاض کے لیے، ایک ایسے وقت میں، جب کہ اسرائیل غزہ میں اپنی بربریت پر مبنی مہم چلا رہا ہے، ایسا کرنے کی سیاسی قیمت بہت زیادہ ہے۔”

نئی دہلی نے کہا ہے کہ اس وقت جاری تنازعہ تجارتی راہداری کے منصوبوں کو متاثر نہیں کرے گا۔ بھارت جس کی معیشت ترقی کر رہی ہے، مجوزہ راستے سے بڑا فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہوگا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے آئی ایم ای سی کو “آنے والے سینکڑوں سالوں تک عالمی تجارت کی بنیاد” سے تعبیر کیا ہے۔

“آئی ایم ای سی طویل مدتی ہے،” وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے گزشتہ ہفتے مراکش میں کہا جہاں انہوں نے G-20 وزرائے خزانہ کی میٹنگ میں شرکت کی۔

“اگرچہ قلیل مدتی خرابیوں سے خدشات لاحق ہوسکتے ہیں اور ہمارے ذہنوں پر قابض ہوسکتے ہیں، لیکن ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔”انہوں نے شرکا کو بتایا۔