بلوچ نیشنل موومنٹ کے جاری بیان میں کہا گیا کہ پارٹی نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے جرمنی کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور آگاہی مہم کا انعقاد کیا۔ یہ تقریبات کلن اور کیمنتس میں ہوئیں ۔ ان پروگرامز میں بی این ایم کے اراکین کے ساتھ ساتھ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے اراکین اور علاقائی عہدیداروں نے بھی شرکت کرتے ہوئے اس مقصد کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ مہم کے دوران، مظاہرین کا مقصد مقامی لوگوں میں بلوچستان کی سنگین صورتحال اور پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیے گئے بلوچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے بارے میں شعور بیدار کرنا تھا۔ بی این ایم جرمنی کے جنرل سیکریٹری جبار بلوچ، جوائنٹ سیکریٹری شر حسن، یونٹ سیکریٹری (این آر ڈبلیو ) بدل خان، بی آر پی جرمنی کے میڈیا منیجر عبدالجلیل، آصف بلوچ، صادق بلوچ، صفیہ بلوچ، قاسم حسین، اور آفتاب بلوچ نے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری پر بلوچستان میں تشدد اور جبر کے خاتمے میں مدد کرنے کے لیے زور دیا۔
تقریب میں مقررین نے بلوچستان میں جاری مظالم کی بنیادی وجہ اس خطے پر پاکستان کے قبضے کو قرار دیتے ہوئے کہا 1948 کے بعد سے جب پاکستانی فوج نے بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کیا، بلوچ قوم کو بے پناہ مصائب کا سامنا ہے۔ تب سے پاکستانی ریاست بلوچ قوم پر مسلسل جبر کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے مطابق، گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بلوچستان میں 45,000 سے زائد افراد جبری گمشدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ انھوں نے مظالم کی سنگین صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملتان کی نشتر ہسپتال یونیورسٹی میں 500 سے زائد مسخ شدہ لاشوں کی حالیہ دریافت نے بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ قوی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ لاشیں بلوچ جبری گمشدہ افراد کی ہیں جنھیں پاکستان فورسز نے مختلف اوقات میں اغوا کیا تھا۔ بلوچستان میں فوج کے زبردست کنٹرول، خبروں اور اطلاعات کو میڈیا تک پہنچنے سے روکنے کے باعث ایک ’’ انفارمیشن بلیک ہول” بن چکا ہے۔ غیر ملکی صحافیوں اور نامہ نگاروں کو بھی اس خطے میں جانے سے منع کیا گیا ہے۔
مزید کہاکہ بلوچستان میں جاری جدوجہد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) اور بلوچ ری پبلیکن پارٹی (بی آر پی) بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ وہ یورپی یونین سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ مداخلت کریں اور آواز سے محروم بلوچ قوم کی آواز بنیں۔ بلوچ تنظیمیں تمام مہذب اقوام اور افراد پر زور دیتی ہیں کہ وہ پاکستانی افواج کے اس غیر انسانی تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔