بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ 22 اکتوبر کا پرامن لانگ مارچ بلوچستان کی تاریخی لانگ مارچ ثابت ہوا ہے۔ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل و دیگر قیادت بلوچستانی عوام کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے کم وقت کے باوجود ہمارے ساتھ دیا ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے لانگ مارچ اور جلسے میں شرکت کر کے فیصلہ بی این پی کے حق میں دے دیا ہے اسی وجہ سے مرکزی و نگران حکومتیں اور ان کے درجنوں ترجمان سیخ پا ہوچکے ہیں، ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رٹی رٹائی باتیں کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ کو وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ، نگران صوبائی وزیر اطلاعات، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ڈائریکٹر اشتہارات محکمہ تعلقات عامہ حکومت بلوچستان کو عہدوں سے ہٹانے کیلئے تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جان اچکزئی نگران صوبائی حکومت نہیں ڈیتھ سکواڈ کے ترجمان ہیں۔ گذشتہ دنوں پر امن لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا صوبائی حکومت، نادیدہ قوتیں، ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر بی این پی کے خلاف پارٹی بن کر سامنے آئے لیکن عوام کی طاقت کے سامنے ان کو جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہ ملا، بجلی منقطع کرانے، خوف و ہراس پھیلانے، میڈیا کو کوریج سے روکنے کی حکمت عملی بنائی گئی تھی جنریٹرز تک کو تالے لگائے گئے تھے جن کا مقصد یہی تھا کہ لوگ جلسے میں نہ آئیں۔
“میاں غنڈی سمیت کوئٹہ میں مختلف جگہوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی اور لانگ مارچ کو مختلف جگہوں پر روکنے کا مقصد یہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح یہ جلسہ منعقد نہ ہو۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے لئے دفعہ 144نافذ ہے خواتین و بچوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا بلوچ روایات کے منافی ہے، جھوٹ پر مبنی الزامات لگانے کا مقصد یہی ہے کہ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل و پارٹی قیادت کو پارلیمانی جدوجہد سے دور رکھا جائے اوربلوچستان میں من پسند پارٹیوں خصوصاً باپ پارٹی کو آگے لایا جائے۔”
بیان میں کہا گیا کہ نگران صوبائی وزیر وڈھ مسئلے کو زمین کا تنازعہ گردانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قبائلی مسئلہ ہے جبکہ دوسری جانب نگران وزیراعظم وفاقی و صوبائی سرکاری مشینری بی این پی کے خلاف عملاً فریق بن چکے ہیں جس سے بات واضح ہے کہ یہ زمین کا مسئلہ نہیں بلکہ دال پوری ہی کالی ہے ان کے مکروہ چہرے ملک بھر کے سامنے عیاں ہوچکے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ ڈیتھ اسکواڈ کو تحفظ دینے کیلئے ریاستی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے جو غیر آئینی، غیر جمہوری اقدام ہے۔ بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل کے خلاف جھوٹ پر مبنی باتیں منسوب کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بی این پی کی پارلیمانی جدوجہد پر پابندی لگائی جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس سپریم کورٹ ان اقدامات پر فوری نوٹس لیں۔ وزیراعظم ، وفاقی وزیر داخلہ، نگران صوبائی وزیر اطلاعات جو بی این پی کے خلاف فریق بن چکے ہیں انہیں فوری طور پر عہدوں پر برطر ف کر کے غیر جانبدار، ڈیتھ سکواڈ سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو لایا جائے تب ہی صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے اس کے برعکس جب نگران حکومتیں فریق بن کر سامنے آئیں یک زبان ہو کر رٹی رٹائی باتیں کر یں، سرکاری مشینری کا استعمال کریں تو صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
مزید کہا گیا کہ نگران صوبائی وزیر جان اچکزئی، ڈائریکٹر اشتہارات محکمہ تعلقات عامہ حکومت بلوچستان کی جانب سے جلسے سے قبل ہی ہدایات دینا کہ بی این پی کے جلسے کی کوریج نہ کی جائے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی حضرات کو ایوب اسٹیڈیم کے مین گیٹ پر کئی کئی گھنٹے انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے اندر داخل نہ ہونے کی اجازت دینا یقیناً اس بات کی غمازی ہے کہ پارٹی کے خلاف پری پلان سازش کی گئی ملک کے تمام طبقہ فکر، سیاسی اکابرین، ترقی پسند جماعتیں، اہل قلم، صحافی خصوصاً بی بی سی کے رپورٹر کاظم مینگل، معروف صحافی حامد میر سمیت دیگر کے رپورٹس اور ٹویٹس اس بات کے ثبوت ہیں کہ حکومتیں بی این پی کے خلاف پارٹی بن چکی ہیں۔
کہا گیا کہ تمام سازشوں کے باوجود پرنٹ میڈیا، بین الاقوامی نشریاتی اداروں، سوشل میڈیا نے لانگ مارچ اور جلسے کو جو کوریج دی وہ قابل ستائش ہے۔ عوام کا سمندر سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں طویل سفر طے کر کے جلسہ گاہ پہنچا اور یہ ثابت کیا کہ ہم نظریاتی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل و قیادت کو دیوار سے لگانے کا مقصد انتخابات میں ہمارا راستہ روکنا ہے۔ بی این پی کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہو کر درجنوں ترجمان جو متنازعہ بیانات دے کر ثابت کر رہے ہیں کہ نگران حکومت کے مقاصد اور سازشیں کیا ہیں اور پارٹی اور بی این پی کے خلاف کیا ہونے جا رہا ہے۔