بی ایس او
تحریر: وشدل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک وقت تھا جب سنا کرتے تھے کہ ایک سرخ سمندر بی ایس او بولو تو بولو بی ایس او ہم سب کا رہبر بی ایس او شاید یہ وہ وقت تھا جب قوم کے لیے باعث فخر اور سرکار کے لیے درد سر بی ایس او تھا ۔تاریخ سے تو سب واقف ہیں کہ تاریخی طور پر بی ایس او کا کیا کردار رہا ہے، یہ وہ دور تھا جب بی ایس او مکمل طور پر صرف ایک منزل کی جانب گامزن تھی. پھر یوں ہوا کہ جب منزل سے توجہ ہٹ گئ اور ڈگر تبدیل ہوا تباہی کا سفر شروع ہوا۔
تحریر کا ہر گز یہ مقصد نہ لیجیے گا کہ لکھاری کو مایوسی پھیلانا مقصود ہے مایوسی قومی تحریک میں کُفر ہے، اگر کوئ میری باتوں پر کھوکھلا ہو کر اعتبار کرے یہ بھی غلط ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کوئ مجھ سے ہر ھال میں متفق ہو، لیکن قلم کو کوئ حقیقت لکھنے سے نہیں روک سکتا ۔جہاں تک میرا زاتی اندازہ ہے 2016 تک جو بی ایس او تھا، اس سے کوئ انکاری نہیں ہو سکتا 16 – 18 تک جس ڈگر کی طرف رواں ہوئ وہ تباہی کا ڈگر تھا۔ بی ایس او بلوچ قوم کے لیے میرے خیال سے ایک ایسا ادارہ رہا ہے جس پر ہر فرد فخر کیے بنا نہیں رہ سکتا ۔اور جب تک یہ حقیقی ڈگر پر تھا یہاں سے ایسے عظیم ہیرے پیدا ہوئے جن سے انکاری صرف وہی ہوں گے جو کہ دلال کا کردار ادا کر رہے ہوں۔
کہتے ہیں کہ جب پانی ایک جگہ کافی دنوں ٹھرا رہے تو وہ بدبودار ہو جاتا ہے شاید میرے الفاظ نامناسب ہوں بصد معزرت، میرے خیال سے ایک کمیٹی جو بنائ گئ تھی جس کو اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو واقعی نہ تین میں ہے نہ تیرا میں ( کنفیوژڈ شدہ زہن پیدا کرنے کی فیکٹری) ، ان دوستوں سے بھی معزرت جو حقیقت میں انھی تنظیم میں حقیقی معنوں میں جہد کر رہے ہیں شاید کچھ نادانی کے باعث اور شاید کچھ واقف ہونے کے باوجود اسی کوشش میں ہیں کہ اسے درست ڈگر پر اتارا جائے، لیکن جو ٹولی یہاں حاوی ہے وہ انھی لوگوں کی ہے جو حقیقی ڈگر پر چلنا تو دور اس ڈگر کے بارے میں بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں ۔
ایک وقت تھا جب ممبرشپ صرف انھی لوگوں کو دی جاتی تھی جو اس کٹھن ڈگر پر چل سکے اور جو نہ چل سکے انھیں تنظیم سے فارغ کیا جاتا تھا۔مگر آج الٹ ہے جو حقیقی ڈگر کی بات کرے جو سوالات کرے کہ کل ہم کہاں تھے آج ہم کہا جارہے ہیں؟ کیا واقعی جس طرف ہم جا رہے یہ ہمیں اس ڈگر سے قریب لے جا رہا ہے؟ یا مزید دوری کی جانب دکھیل رہا ہے، کیا واقعی قوم ہم پر فخر کرتی ہے، واقعی ہمارا تعلق اسی کاروان سے ہے؟ جس پر لاکھوں لوگوں نے اپنی جان دی، جہاں سے ہیرے نکلے، کیا ہم ان کے خون سی کھیل نہیں رہے، کیا ہم اس لائق ہیں کہ شہیدوں کے کارواں کو لے کر چلیں؟ کیا انھوں نے ہم جیسے لوگوں کے لیے قربانیاں دی ہیں، آج ہم سیاسی ورکر پیدا کر رہے ہیں یا مزدور اور وہ بھی کھوکھلا مزدور؟ ان سوالات کا جو جواب مانگے اسے فارغ کر دو ۔
آج اس کارواں میں ایسے لوگوں کی بھر مار ہے جو صرف ” جی حضور ” کی بنیاد پر عہدوں پر فائز ہے اور آگے بھی یہی چاہتے ہیں کہ جو جی حضوری چلتی رہے، حقیقت میں انھیں قوم سے کوئ سروکار نہیں ہے یہ صرف قوم کو بی ایس او کا ماضی دکھا کر بلیک میل کرتے ہیں اور خود کو انہی کا وارث بلاتے ہیں، اور یہ لوگ گُفتار کے شیر ہیں، ان سے اگر آپ بات کریں گے تو یہ اس بات کو اتنا لمبا کھینچے گے اسے اصل موضوع سے بہت دور لے جائیں گے دراصل یہ خیالوں کی دنیا سے نہیں نکل پاتے ہیں، جیسا کہ نواب بگٹی نے کہا تھا ” گُفتار شیر مئے کارا نیست آ” تو یہ لوگ دعوہ ایسے کرتے ہیں کہ جیسے آج جس جگہ بلوچ ہے اس کا تمام تر کریڈٹ انھی کو جاتا ہے اور حقیقت میں یہ لوگ ایسا کہتے ہوئے بلکل شرم محسوس نہیں کرتے ۔
اس کارواں میں صرف سادہ لوح، نادان، نا آشنا یا تو پھر جہد کار، مستقل مزاج لوگ جو کہ حقیقی معنوں میں قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے شہیدوں کے نام پر ۔ اور ہاں اگر کوئ سادگی سے نکل آئے اور اختلاف رکھے سوال کرے جی حضوری سے انکار کرے حالانکہ حقیقت میں وہ لوگ اس کارواں سے جی حضوری ءُ چاپلوس کلچر کا مکمل طور پر انخلا چاہتے ہیں اور تنظیم کو حقیقی ڈگر پر چلانے کے خواہش رکھتے ہیں انھیں مختلف ٹیگ لگا کر فارغ کیا جاتا ہے ۔ اگر سرنڈر ہونے کی بات کرے تو کچھ حد تک یہ حقیقت ہے ۔ بابا کی وہ بات جو اکثر اس کارواں میں یاد رہی نیشنلزم ابھی طفلی سطح پر ہے اور نجانے کب تک اس نادان بچے کے پاؤں کِھنچتے رہے گے ۔
تحریر میرے زاتی مشاہدات ءُ تجربات پر مبنی ہے، سوچا کے اپنے تجربات کو تحریر کروں، اختلاف رکھنے کا تمام پڑھنے والوں کو حق ہے اور رکھنا بھی چاہیے۔ کیونکہ جب تک اختلاف نہیں رکھو گے اندھے رہو گے ، اور غلام جب تک اندھا اور کھوکھلا رہے گا کبھی راہ راست والے ڈگر پر نہیں چل سکتا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔