بلوچستان کا نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ڈیتھ اسکواڈز چلارہا ہے – سردار اختر مینگل

395

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ میرے گھر سے 40 یا 50 گز دور راکٹ آکر گرے ہیں، جو گولیاں میرے گھر پر آکر لگی ہیں وہ ہیوی مشین گن کی گولیاں ہیں، وڈھ شہر میں کافی لوگ اپنی کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں وڈھ کی صورت حال پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں حیرانگی ہے بلوچستان میں ایپکس کمیٹی کی پہلی بار میٹنگ بلائی گئی اور اس میں جو مسئلہ زیر بحث آیا وہ وڈھ کا تھا، بلوچستان میں کئی ایسے قبائلی جھگڑے ہوچکے ہیں جن میں کئی لوگ مارے جاچکے ہیں، ابھی بھی وہ قبائلی جھگڑے جاری ہیں، لیکن وہ مسائل ایپکس کمیٹی میں زیر بحث نہیں آتے۔

خیال رہے کہ وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو مسلح گروپ کئی ماہ سے مورچہ بند ہیں جب کہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، بھاری ہتھیاروں سے دونوں گروپ ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

وڈھ میں مینگل قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر جان مینگل کی آبائی رہائش گاہ ہے۔

اختر مینگل نے آج نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی ایپکس کمیٹی نے وہی فیصلہ کیا ہے جو دوسرے فریق کی ڈیمانڈز تھیں، میاں شہباز شریف کی بھی جب حکومت تھی، جب ہم ان سے ملے تھے تو وہ یہی کہتے تھے کہ فلانی جگہیں مورچے آپ لوگ خالی کریں، اُس (فریق) کے جو لوگ ہوں گے وہاں پر بیٹھے رہیں گے کیونکہ وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں، یہ آپ کے خفیہ اداروں کے یا آپ کی عسکری قوت کے لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ان کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ہمارا سرمایہ ہمارا ایسیٹ ہیں’۔

مینگل قبیلے کے ان دو خاندانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے رسہ کشی چلی آ رہی ہے تاہم اس میں شدت 20 سال قبل پرویز مشرف کے دور میں دیکھی گئی جب پہلی بار سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل کے حامی زمین کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے تھے۔ اس وقت قبائلی عمائدین کی مداخلت کی وجہ سے معاملہ تصادم تک نہیں پہنچا۔

2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا۔ اسی طرح 2011ء میں جب کوئٹہ میں شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس کے مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو بھی نامزد کیا گیا۔

سردار اختر مینگل اور ان کے حامیوں سمیت دیگر بلوچ سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ شفیق مینگل کو ریاستی حمایت حاصل ہے اور وہ مسلح جتھہ بناکر لوگوں کو لاپتہ، اغواء اور قتل کرنے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہے۔

شفیق مینگل پر مسلح مذہبی تنظیموں سے تعلق، خودکش حملہ آوروں کو پناہ دینے جیسے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں۔

نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے اس الزام پر کہ اختر مینگل کے بھائی لشکر بلوچستان تنظیم کو ہیڈ کرتے ہیں جو ملک کو توڑنے کی سازشوں میں ملوث ہے، اختر مینگل نے کہا کہ ’مجھے سرفراز بگٹی سے ایسی چیزوں کی امید ہے بلکہ اس سے زیادہ بیانات کی امید ہے، کیونکہ ان دونوں کی پرورش ایک ہی انسٹی ٹیوشن میں ہوئی ہے، اور سرفراز بگٹی بھی ڈیرہ بگٹی میں اسی طرز کا ڈیتھ اسکواڈ چلا رہے ہیں، سرفراز بگٹی بھی سرکاری یا ریاست کے اداروں کی سرپرستی میں اسی طرز کا ایک امن کا لشکر کے نام سے ڈیرہ بگٹی میں چلا رہے ہیں، جس سے ناصرف ڈیرہ بگٹی بلکہ بلوچستان کا ہر باشعور شخص واقف ہے کہ اس کے ہاتھوں سے وہاں پر کتنے لوگ مارے گئے ہیں، اس کے ہاتھوں کتنے لوگ اٹھائے گئے ہیں‘۔

اختر مینگل نے مزید کہا کہ ’جس انداز میں سرفراز بگٹی اس کا دفاع کر رہے ہیں یہی سرفراز بگٹی 2014 میں جب صوبائی وزیر داخلہ تھے، آج بھی یہ باتیں ریکارڈ پر ہیں کہ جب یہاں پر 9 لیویز والے شہید کیے گئے تھے وڈھ میں تو میں نے اسمبلی سیشن میں ان سے سوال کیا کہ اس کے پیچھے کون لوگ ہیں تو سرفراز بگٹی نے یہی بات کہی تھی کہ اس کے پیچھے ہاتھ شفیق مینگل کا ہے‘۔

خیال رہے کہ سن 2014 میں خضدار میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے میں نو اہلکاروں کی ہلاکت کا مقدمہ بھی شفیق مینگل کے خلاف درج کیا گیا تھا۔

واقعے کے کچھ عرصے بعد شفیق مینگل کو اُن کے آبائی علاقے تک محدود رکھا گیا۔ اِسی سال توتک سے اجتماعی قبریں ملنے کے معاملے پر بھی اُنگلیاں شفیق مینگل کی طرف اُٹھائی گئی تھیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ اس وقت شفیق مینگل ملزم تھا یا مجرم تھا آج اداروں سے ہدایات آگئیں تو اُس نے اسے دودھ میں دھو کر پاک دامن کردیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے وڈھ میں جاری کشیدگی اور حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر ذمہ داران کے خلاف اقدامات نہ ہونے پر 22 اکتوبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔

بی این پی کی احتجاجی مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امید نہیں ہے جو احتجاج ہم کرنے جا رہے ہیں اس کی ہمیں اجازت دی جائے گی، ’ہم ریاست کے اُن اداروں کی اُن کارستانیوں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں‘ تو ظاہر ہے اس کیلئے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے اور مزید سامنا کرنا پڑے گا جس کیلئے ہم تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جو قومی اسمبلی میں ہم نے خفیہ اداروں کے حوالے سے بیانات دیے ہیں، جو مؤقف اختیار کیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جو کمیشن بنایا تھا اس کمیشن نے جو رپورٹ بغیر کسی دباؤ کے پیش کی ہے اس کی سزا ہمیں دی جا رہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں ہماری راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا یہ بیان کہ بلوچستان میں 50 سے زیادہ مسنگ پرسنز نہیں اس پر بات کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ انوار الحق کاکڑ کا تعلق اسٹبلشمنٹ کی پیدا کردہ پارٹی سے ہے، اگر بلوچستان میں لاپتہ افراد کی 50 سے زیادہ تعداد نہیں تو کمیشن کی رپورٹ دیکھیں اس میں کیا تعداد ہے، عمران خان کے دور میں ساڑھے چار سو لوگ بازیاب ہوکر آئے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ ’جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ ”وہ“ الیکشن کرانے کی نیت میں ہیں یا اس موڈ میں ہیں کہ الیکشن ہوں‘، کیونکہ اس وقت (جنوری فروری میں) الیکشن ہوئے تو ن لیگ جو پنجاب اور پختونخوا میں جو نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے شاید وہ نتائج حاصل نہ کرپائے۔