بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے (حصہ اول)
تحریر:گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انقلابی گیت گنگنانے والے نرمزار سپاہیوں کا جنگ گھر گھر میں خوشیاں بانٹنے کاجنگ ہے، ترنگے کو سرزمین پر لہرانے کا ہے اور قوم کو آزادی دلانے کا۔ بلوچ قومی جنگ بلوچ بقاء کا جنگ ہے، انسانیت و دانائی کا۔ اس جنگ میں شامل فرزندان سرزمین نہ جانے کتنے گھر والوں سے جدا ہوئے، کتنوں نے شہادت نوش فرمایا۔ اکثریتی لیڈروں کے رشتہ داروں اور نزدیکی علاقوں کے لوگوں نے مٹی کیلئے قربانیاں دے کر زمین میں جا ملتے رہے۔آپ اگرچہ بولان و سبی کی باتیں کروگے یا مند و کراچی کی، ہر دشت و جبل میں درد و سوز بھری کہانیاں رونما ہوتے ہیں۔ ان میں شامل کچھ لیڈران کے گھروں کی کہانیاں ہیں کہ جن پر ہیلی کاپٹروں کے شیلنگ ہوئے تھے، بچے، بوڑے خواتین و مرد اور جوان شہید ہوئے، ہر طرف بم و توپیں گرتے۔ ان کہانی و داستانوں میں ڈاکٹر اللّٰہ نظر صاحب کے گھر کی کہانی بھی شامل ہے۔
گلزمین کی خوبصورتی کا یہ سربلند و پہاڑی چٹان ڈاکٹر اللّٰہ نظر بلوچ مشکے میہی کے وہ شخصیت ہیں کہ جنہیں دنیا بھر میں نیلسن منڈیلا، فیڈل کاسترو، ہوچی منہ اور باقی انقلابی لیڈروں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ نڈر بلند سیاسی و جنگی محاذ پر لڑنے والا مڈل کلاس کا بندا آج دنیا کی سامراجی طاقتوں کے خلاف ایک ایسا انسان دوست، علم سے لیس سرفروش انقلابی صلاحیتوں کا دانشور ہیں جو بلوچستان بھر کے جوانوں، کماش، اور بلوچ خواتین کی رہنمائی کرتے چلے آئے ہیں گویا پہاڑوں کی سائے تلے کھڑے ہوکر نرمزار جانباز بلوچ سپاہیوں کی تربیت کررہے ہیں۔
اونچائی پر فائز انسان نے اپنے بلوچ عوام، بھائیوں اور رشتہ داروں کو دھرتی ماں کیلئے قربانیاں دینے کی درس دی۔ چند سال پہلے یہ شخصیت بی ایم سی کے ہاسٹلوں میں تربیت یافتہ بلوچ سیاسی لیڈر تھے، ایک مخلص سنگت لیکن قومی نظریہ کے تقاضاؤں کی پاسداری کرنے والا جوان بندوق ہاتھوں سے ہلا ہلا کر بولنے لگے” آزادی بندوق سے لیں گے۔” آج قلم کے ساتھ بندوق بھی ہاتھوں میں رکھ ہوئے ہیں، دانشوری و دانائی کا بلوچ کماش مخلصی و شعور اور انقلاب کا اعلیٰ مثال ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مشکے کے علاقے میں یہ لیڈر نے کیا نہیں دیکھا۔
دل دہلانے والی زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں فوجی آمد و رفت شروع ہوا، کچھ جگہیں جہاں لوگ بغیر گھر رہ رہے تھے آرمی جنرل و کرنل جاکر جوانوں کو اٹھاتے، ایک گھر میں بربادی کیلئے اور دوسرے میں فنڈز کے بہانے جاتے، ہر طرف پھیلنے لگے، گاؤں گاؤں جاکر غریب ماؤں بہنوں کو تنگ کرتے، مردوں کو اپنے نئے چوکیوں میں بلا کر پیٹتے، انہیں دو دو ہفتے تک بند کرکے نیم مردہ حالت میں پارسل کرتے یا قتل کرواکر پولیس و لیویز کے حوالے کرتے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا و پاکستانی چینلز پر دکھائے جانے والے غریب و بزگر، جوان و بوڑھے حضرات دہشتگرد کہلاتے جو شروع سے نوآبادیاتی حکومتوں کا بیانیہ رہا ہے، گویا پاکستانی میڈیا کو بلوچستان کے حالت کا خبر تک پہنچ نہیں رہا تھا لیکن ان میڈیائی پروپگنڈوں نے پنجابی حکومت کی خوب مدد کی۔
ہوا یوں کہ پاکستانی افواج نے بزور قوت سے جاری کردہ تسلسل میں ایک اور نوآبادیاتی حربہ استعمال کرنا شروع کردیا، دکان و ہسپتالوں اور گھروں کے دیواروں پر لکھ دیں”اگر کوئی شخص سرنڈر کرنا چاہتا ہے تو دیئے گئے نمبر پر کال کریں۔” لوگوں کے اچھے گھروں اور دیواروں پر پاکستانی جھنڈا بناتے، یہاں تک کہ بیرونی فنڈز کے ڈبوں پر نوآبادیاتی جھنڈا نقش کرتے۔ کچھ لوگ جو شروع سے بلوچ عوام کو پسند اس لیئے نہیں تھے کہ یہ بلوچ قومی تحریک کیلئے اہل نہیں تھے، ہر گھر میں داخل ہونے سے پہلے مہمانی کیلئے بکرا ذبح کرواتے، کسی کے بیٹے کو دھمکاتے تو کسی کو سرعام قتل کروانے کی دھمکیاں دیتے یہ بلوچ آزادی پسند رہنماؤں خالص طور پر بلوچ رہنما اختر ندیم بلوچ اور ڈاکٹر اللّٰہ نظر کیلئے قابل قبول نہیں تھے، انہیں موقعے دیئے تھے کہ خود کو سدھاریں لیکن ان نا اہل لوگوں نے خود کو آزادی پسند قرار دے کر سرنڈر کرنا شروع کر دیا، مشکے بازار میں آرمی کے ساتھ ڈاکٹر اللّٰہ نظر کے خلاف ریلی نکالی، پاکستان ذندہ باد کا نعرہ لگایا اور کہیں جوانوں کو قتل کروایا گیا۔ تعلیم یافتہ جوان اکثر مارے جاتے، انہیں جیلی مقابلوں میں خالی بندوق و میگزین دے کر بعد گولیوں سے بھونتے ، پانچ پانچ سال یا اس سے زیادہ سالوں کا لاپتہ افراد کو جنگلوں اور بازار میں مار گراتے، ہر طرف انتشاری پھیلا ہوا تھا، سرینڈر والوں کو ویگو گاڑیوں میں پروٹوکولز مہیا تھے، وہ آہستہ آہستہ ایک نئی علاقائی جنگ چھیڑنے لگے ، حب و کراچی اور کوئٹہ میں بڑے عمارتیں تعمیر کرواکر پاکستانی آرمی کو انفارمیشنز فراہم کرتے تھے، وہ علاقے کے غریب لوگوں اور آزادی پسند بلوچ فرزندوں کے گھروں کو مسمار کرواتے۔
مشکے کے کچھ علاقے جیسا کہ منگلی، تنک، میہی، رونجان، گجر، لاکھی، جیبری، نوکجو میں نئے چوکیاں قائم ہوئے، لوگوں کو روڑوں پر کھڑا کرکے سورج کی طرف دیکھنے کو کہتے، ہر فومی کیمپ میں یہی حربہ زیادہ استعمال ہوتا۔ لوگ ہفتے ہفتے تک آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے تھے، موٹر سائیکل سوار مرد و خواتین کا انٹری کرتے، کبھی کبھی مرد کو دیر تک رکنے کو کہتے عورت کو اکیلے جانے کو۔ دس دس سالہ طالب علموں کو پاکستانی شناخت کارڈز کو بنوانے کو کہتے جس کے پاس کارڑ نہیں ہوتا تو انہیں گالی و گلوج دینے کے ساتھ ساتھ چھتروں سے مار کر چھوڑتے یا دو دو دن تک زندان کرنے کے بعد چھوڑ کر کہتے کہ اپنی کارڑ کو جلد از جلد بنوانا ورنہ آپ ہم سے نہیں بچ سکتا۔
لوگوں نے اسی انتشاری و افسردگی کا ماحول دیکھ کر اپنے بچوں کے باہر قدم پر پاپندی عائد کرتے.
وہاں افواج روز گھروں اور جنگوں کو آگ لگاتے، اسی ہی دوران جب بھی افواجِ پاکستان گھروں میں دس سالہ یا بارہ سالہ بچوں اور جوانوں کو بغیر شناختی کارڈ دیکھتے تو انہیں مار مار کر ماؤں اور بہنوں کی رونے اور شیخوں کی وجہ سے چھوڑتے ورنہ اپنے ساتھ لیجاتے۔ اسکولوں کے بچے اور بچیاں کارڑز بنانے لگے، مشکے میں ایک نادرا آفس قائم ہوا جو گجر انٹر کالج پر قابض فوجی کیمپ کے نزدیک تھا۔ پنجابی فوجی افسران روز وہاں آکر بلوچ خواتین و بچوں سے ان کے خاندانوں کے بارے میں پوچ تاج کرتے۔ ساتھ ساتھ باقی سب اداروں میں فوجی آفیسران جاکر پاکستان ذندہ باد کا نعرہ لگانے کو کہتے، جب بھی کسی پاگل پن و بہرہ انسان کا سامنا ہوتا تو وہ انہیں لاتوں، لکڑیوں اور جوتوں سے مار مار کر چھوڑتے۔
جاری
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔