چک اِیں بلوچانی
بلوچ قبیلہ سے لے کر قومی تشکیل تک، ایک مطالعاتی تبصرہ – پہلاحصہ
تحریر: قاضی داد محمدریحان
بلوچ بطور قبیلہ
بلوچ ایک قوم ہے ، قومیں مساعد اور نامساعدحالات میں اپنے تشخص ، اقدار اور قومی یک جہتی کے لیے کوشش کرتی ہیں ۔ قومیں مختلف حادثات اور واقعات کی وجہ سے بنی ہیں ۔ بنیادی طور پر بیشتراقوام کی جڑیں ایک ہیں جیسے کہ بلوچ قوم ماضی کی پارسی قوم کا حصہ تھی، جس کی اپنی ایک جداگانہ تاریخ بھی ہے ۔ قومی ڈھانچے کی تشکیل صدیوں میں ہوتی ہے جو قبیلہ کسی بڑی قومی اکائی سے علیحدہ ہوکر نئی شناخت کے سانچے میں ڈھلتا ہے وہ اس سے پہلے قومی صفات کے حوالے سے نمو پاچکا ہوتا ہے ۔اس عمل کے لیے ضروری سیاسی قوت اسے حاصل ہوچکی ہوتی ہے اور قومی وفاق کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اس کی ایک منفرداکائی کی حیثیت موجود ہوتی ہے ۔
تاریخ کی کتابوں میں بلوچ قوم کاذکر بھی ہزاروں سال قبل کی بادشاہتوں میں پیش آنے والے واقعات میں نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔علمائے تاریخ اس بات سے متفق ہیں کہ بلوچ ایک ایرانی النسل قوم ہے ۔ بلوچ قوم کا بطور اہم قبیلہ ایرانی قدیم جنگوں میں ذکرتاریخ دانوں کی اس غلط فہمی کی وجہ بنی کہ بلوچ ہمیشہ سے ایک علیحدہ قوم کی صورت ماضی کی عظیم ایران زمین پر باقی قوموں سے الگ تھلگ رہی ہے ۔
شاھنامہ فردوسی کوجو گوکہ افسانوی واقعات پر مبنی ہے ایرانی تاریخ اور تاریخی کرداروں کو سمجھنے میں ماخذ کا درجہ بھی حاصل ہے ۔ ایرانی مانتے ہیں کہ شاھنامہ ان کے لیے محض ایک افسانہ نہیں بلکہ ان کی تاریخ ہے ۔ ایرانی بادشاہوں کی یہ منظوم تاریخ ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔ مانا جاتا ہے فروسی نے یہ شاہکار آج سے’ ایک ہزار نو‘ سال پہلے لکھی ہے ۔ انہوں نے 980ء میں اسے لکھنے کا آغاز کیا اور 29سال کی شبانہ روز کھٹن محنت کے بعد 1009ء کو مکمل کیا ۔ شاھنامہ میں ’بلوچ‘ کا ذکرنام کے ساتھ مختلف ادوار کی جنگوں میں کم از کم چار مرتبہ آیا ہے ۔ شاھنامہ فردوسی کے بعض نسخوں میں بشمول جس نسخے سے درج ذیل اشعار نقل کیے گئے ہیں ، عربی رسم الخط کی وجہ سے بلوچ کو ’بلوج‘بھی لکھا گیا ہے اسی طرح دیگر الفاظ میں بھی ’چ‘ کی جگہ’ج‘ لکھا گیا ہے مثلا کوج ، بلوج اور سروج وغیرہ ۔ یہاں میں نے ایسے الفاظ کی تصحیح کی ہے۔ مورخین کے نزدیک کوہ نشین اور بنجارہ ہونے کی وجہ سے بلوچوں کو شاھنامہ میں ’کوچ‘ بھی کہاگیا ہے۔
گزین این کردازآن نامداران سُوار
دلیران جنگی دہ و دو ھزار
ھم از پھلووپارس و کوچ و بلوچ
زگیلان جنگی و دشت سَروچ (۱)
ترجمہ :
اس طرح انہوں نے نامور لوگوں کو جنگ کے لیے چُنا
میدان جنگ کے بارہ ہزار بہادر
کندھے سے کندھے ملا ئے ہوئے ، پارس ، کوچ اور بلوچ
معرکہ خیز گیلان سے لے کر دشت سروچ تک
منقول : شاھنامہ فردوسی ، داستان سیاوش ،کاوس شاہ کاافراسیاب کی ایران سے آمد کی اطلاع کا باب،اشعار نمبرز:۶۰۵ تا۶۰۶۔
شاھنامہ میں کیخسرو کی عظیم الشان فوج کا ذکر کرتے ہوئے فردوسی نے بلوچ دستے کی امتیازی خصوصیات کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا ہے ۔
سپاھی زگردان کوچ و بلوچ
سِگالیدہ جنگ و بر آوردہ خوچ
کہ کس در جھان پشت ایشان ندید
برھنہ یک انگشت ایشان ندید
درفشی برآوردہ پیکر پلنگ
ھمی از درفشش ببارید جنگ (۲)
ترجمہ:
بلوچ اور کوچ کمانداروں کے ماتحت سپاہی
جنگ کے دھنی اور سر پر خود پہنے ہوئے
کسی نے دنیا میں ان کو پیٹھ دکھاتے ہوئے نہیں دیکھا
(ہتھیا روں) سے خالی ان کی ایک انگلی تک نہیں دیکھی
چیتے کی شبیہ کا جھنڈا لہراتے ہوئے
جھنڈا ہرسو جنگ بپا کرتا ہوا
منقول :کیخسرو کی بادشاہی کا ساٹھواں سال ،اشعار نمبرز:۳۰۸ /۳۰۹۔
یک بارگہ ساخت روزی بہ دشت
زگرد سواران ہوا تیرہ گشت
ھمہ مرزبانان بہ زرین کمر
بلوچی و گیلی بہ زرین سپر(۳)
ترجمہ:
ایک دن بیابان میں دربار لگا یا
گھڑسواروں کے اُڑائے گئے گرد سے ہوا تاریک ہوئی
چاندی کے کمر بند باندھے ،سب سرحدی محافظ
بلوچ اور گیلی چمکتے ڈھال کے ساتھ
منقول :نوشین روان ، نوشین روان کی بادشاہی کا اڑتالیسواں سال ،نوشین روان کی خاقان چین کے خلاف لشکرکشی، صفحہ نمبر:۲۵۲،اشعار نمبرز:۱۹۷۱ /۱۹۷۲۔
ان اشعار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بلوچ کم از کم ایک ہزار سال پہلے فردوسی کے زمانے میں ایک ایسی سیاسی قوت اور امتیازی حیثیت کے حامل ضرور تھے کہ جب بھی انہوں نے ایرانی فوج کے ہراول دستوں کا ذکر کیا اس میں ’بلوچ‘کا ذکر کرنا لازمی جانا ۔
حوالہ جات :
۱۔ فردوسی ، ابوالقاسم ،شاھنامہ فردوسی ، بکوشش :جلال خالق مطلق ،دفتردوم ،سال نشر:ناشر :بنیاد میراث ایران ، پخش کنندہ :انتشارات مزدا ، محل نشر:کالیفرنیا،ایالات متحدہ امریکا ، داستان سیاوخش ،گفتار اندرآگاھی یافتن کاوس شاہ از آمدن افراسیاب بہ ایران،صفحہ نمبر:۲۲۱،اشعار نمبرز:۶۰۵ /۶۰۶۔
۲۔ فردوسی ، ابوالقاسم ،شاھنامہ فردوسی ، بکوشش :جلال خالق یمطلق ،دفترسوم ،سال نشر: ،ناشر :بنیادمیراث ایران ، پخش کنندہ :انتشارات مزدا ، محل نشر:کالیفرنیا،ایالات متحدہ امریکا ، کیخسرو،بادشاھی کیخسرو شست سال بود،داستان عرض کردن کیخسرو، صفحہ نمبر:۲۱،اشعار نمبرز:۳۰۸ /۳۰۹۔
۳۔ فردوسی ، ابوالقاسم ،شاھنامہ فردوسی ، بکوشش :جلال خالقی مطلق ۔ابوالفضل خطیبی،دفترہفتم ،سال نشر:ناشر :مرکزدائرہ المعارف بزرگ اسلامی(مرکز پژوھشھای ایرانی واسلامی) ،نوشین روان ،پادشاھی نوشین روان چھل وھشت سال بود،گفتار اندر لشکر کشیدن نوشین روان بہ جنگ خاقان چین، صفحہ نمبر:۲۵۲،اشعار نمبرز:۱۹۷۱ /۱۹۷۲۔