مستونگ دھماکہ سیکورٹی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ حاجی لشکری

280

نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ 29 ستمبر کو مستونگ کی سرزمین پر 60 سے زائد معصوم لوگوں کو ایک دہشت گردانہ حملے میں جس بے دردی سے شہید کیا گیا جس میں اکثریت چھوٹے معصوم بچے اور نوجوانوں کی ہیں وہ قابل مذمت اور لمحہ فکریہ ہے آج ہم نے ان متاثرہ خاندانوں کے پاس اظہار تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لیئے آئے تھے اور ان میں ایسے خاندان بھی تھے جن کے گھر سے چار چار افراد بھی شہید ہوچکے تھے جو تمام سیکورٹی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جس کو ہمارے کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کرد ہاوس مستونگ میں میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر سابق پاکستانی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بلوچستان خصوصاً مستونگ میں اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہیں اس سے پہلے اس طرح کے بڑے سانحات میں وکلاء اساتذہ علماء کرام نوجوان سینکڑوں کے تعداد میں اس طرح کے سانحات و واقعات میں شہید ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں منظم سازش کے تحت کبھی مذہبی گروہ کھبی فرقہ واریت کے نام پر لوگوں کی قتل عام کیئے جاتے ہیں بلوچستان خصوصا مستونگ میں ایسے واقعات کیوں پے در پے ہوتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہیں اور سانحات کو واقعات کے بعد پاکستان کے عوام کو ہندوستان کے بڑکایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف سے خود ریاست خود الزام لگا رہے کہ بلوچستان کے لوگ ہندوستان کے دوست اور ایجنٹ ہیں دوسرے جانب جب کوئی بڑے سانحہ پیش آتے ہیں تو آرمی چیف سے لیکر وزیر داخلہ اور دوسرے ادارے یہ الزام تراشی کرتے ہیں کہ ان واقعات میں بھارت اور اس کا انٹیلیجنس “را” ملوث ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک طرف سے ہندوستان بلوچستان کے عوام کا دوست ہے اور دوسری طرف سے وہ انہی پر دہشت گردی کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہندوستان کو ہمارے ان لوگوں سے کیا خطرہ ہیں جن کو رہنے کے لیئے گھر اور سر ڈھانپنے کے لیئے چھت تک میسر نہیں جو جھونپڑیوں میں یا درختوں کے نیچے زندگی گزارنے کے پر مجبور ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی اسلام آباد سے بلوچستان آتے ہیں تو یہاں کے عوام سے بڑے ہمدردیاں دکھاتے ہیں مگر ان کی ہمدریاں اور ان کی دل صرف صرف اور صرف سیندک ریکوڈک گوادر سوئی گیس کے لیئے دھڑکتا ہے ان کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم نے ایک ہی سانحہ میں 60 معصوم شہداء کی لاشیں اٹھائی مگر دوسری جانب ہمارے ملکی حکمران ہمارے خون کے بجائے ہندوستان میں کرکٹ میچ کو اہمیت دے رہے ہیں اور اسلام آباد میں سکون کے ساتھ کرکٹ میچ کے لیئے ہوٹلوں میں مزے اڑا رہے ہیں عیاشیاں کر رہے ہیں اور ہمارے سانحات پر باقیوں پر الزام تراشی کرکے کرکٹ میچ کو اہمیت دے رہے ہیں اور اسلام آباد والوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کرکٹ میچ کو اہمیت دے یا بلوچستان کے عوام کے خون کو اہمیت دے یہ ان ہی منحصر ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں نہیں بلکہ کرکٹ میچ کو اہمیت دینگے انہوں نے کہا کہ ہمارے صفوں میں آستین کے سانپ موجود ہیں اس وجہ سے ہمارے لوگوں کی قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین ایک عرصے سے معطل ہے آئین کی معطلی کی وجہ سے راتوں رات پارٹیاں بنتے ہیں اور آئین کے بجائے خاص طاقتور اپنے مفادات کی خاطر نئے پارٹیاں بناتے ہیں اور نئے دھڑہ بندیاں کرکے اپنے مفادات کو دوام بخشتے ہیں اور ریٹائرڈمنٹ کے بعد باہر ممالک جاکر جریرہ اور فائیو اسٹار ہوٹل خرید خوشحال زندگی گزارتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی اصل ایگزیکٹو پاور صدر ہوتا ہے مگر المیہ یہ کہ جب صدر کسی چیف الیکشن کمیشنر کو آئین کے مطابق خط لکھتا ہے تو صدر کی خط ردی ہوکر اس پر عمل درآمد سے انکار کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ادھر ہر کسی کا اپنا ذاتی آئین چل رہا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بلوچستان اور مسنگ پرسن کے حوالے سے کچھ نہیں کیا صرف آرمی ایسکٹیشن کے لیئے بہت کام کیئے انہوں نے کہا کہ ملک کو وفاق طرز کے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت جس میں پارلیمنٹ کی آزادی قوموں کی حقوق کی پاسداری ہو اور ہم مائنس بلوچستان پارٹی بنانے کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے اور ہم ایسے سیاسی پارٹی کے بنانے کے خواہاں ہے جس میں بلوچستان کے عوام کی ہر قسم کی حقوق کی تحفظ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس فائز عیسی کے بلوچستان کے مسنگ پرسن اور دوسرے معاملات میں جو کمیٹی پہلے بنایا تھا اس پر عمل درآمد ہونے بجائے الٹا قاضی فائز عیسی پر ایک جعلی ریفرنس دائر کیا جو کئی سال تک ان کو جعلی پیشیوں پر کئی سال تک پریشان کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مستونگ میں جتنے بھی بڑے سانحات و واقعات رونما ہوئے ان پر ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کیا جائے اور ان سانحات کے اصل محرکات سامنے لائے۔