پاکستان کے معروف صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ذاکر مجید بلوچ انگریزی ادب کا طالب علم تھا اسے 2009 میں مستونگ سے سکیورٹی فورسز نے حراست میں لیا اور آج تک وہ لاپتہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ اکثر لاپتہ نوجوان دراصل طالب علم تھے بلوچوں کی پڑھی لکھی نسل کا مقدر صرف چھاپے گرفتاریاں گمشدگیاں اور قتل و غارت بنا دیا گیا ہے۔
حامد میر نے مذکورہ ٹوئٹ بلوچستان نیشنل پارٹی( بی این پی ) کے رہنما ثناء بلوچ کے مستونگ کے حوالے سے کئے گئے پوسٹ کو ری پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
ثناء بلوچ نے اپنے پوسٹ میں لکھا کہ مستونگ بلوچستان کا آکسفورڈ تھا، پہلا اسکول 1903 میں قائم ہوا، ادب، تاریخ و قومی سیاست میں کلیدی کردار کا حامل یہ خطہ غلط داخلی پالیسیوں و بلوچ جماعتوں کی تقسیم کے باعث اب مقتل گاہ بن چکا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ آج کے اس بابرکت دن 50 انسانی جانوں کی قربانی ھمیں ماتم نہیں بلکہ فکر کیلے جنجھوڑتاہے۔
خیال رہے کہ آج مستونگ میں ہونے والے ایک خودکش حملہ میں ستر سے زیادہ افراد جانبحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔