بلوچستان میں اسکول اور فوجی چوکیاں – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

741

بلوچستان میں اسکول اور فوجی چوکیاں
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ

حالیہ دنوں میں تواتر کے ساتھ ایسی خبریں منظرعام پر آ رہی ہیں جو ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہیں، انہی خبروں میں سے ایک تازہ ترین خبر یوں ہے کہ ” پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے علاقے گریشگ میں آپریشن کا آغاز کردیا، آپریشن کے دوران پاکستانی آرمی اہلکاروں نے بدرنگ کے علاقے میں ایک اور اسکول پر قبضہ کرکے اسے فوجی چوکی میں تبدیل کردیا”۔

یہ پہلا اسکول نہیں کہ جسے گذشتہ چند سالوں کے دوران بند کرکے فوج نے اپنے زیر قبضہ لیکر فوجی چوکی میں تبدیل کردیا ہے، صرف گذشتہ دو سالوں کے دورانیہ میں بلوچستان کے مختلف دیہی علاقوں خاص طور پر مشکے و آواران اور مکران کے علاقوں میں ابتک درجنوں اسکولوں کو فوجی چھاونیوں میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔

بلوچستان ایک ایسا علاقہ ہے، جو ستر سالہ جنگ، ریاستی استحصال اور کرپشن کی وجہ سے پہلے سے ہی عالمی درجہ بندی میں تعلیمی میدان میں انتہائی پَست ہے۔ بلوچستان میں اسکولوں کی تعداد نا ہونے کی برابر ہے۔ جو اسکول موجود ہیں ان میں تعلیمی معیار تو قابلِ ذکر ہی نہیں یہاں تو پہلا مسئلہ اسکول کے عمارت اور استاد کی دستیابی کا ہے۔

بلوچستان میں موجود 5000 اسکول محض ایک کمرے اور ایک استاد پر مشتمل ہیں، 2000 اسکول ایسے ہیں جہاں اسکول کی کوئی عمارت نہیں بلکہ بچوں کو کھلے آسمان کے نیچے پڑھایا جاتا ہے۔

بلوچستان میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد شاید دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود گھوسٹ اسکولوں سے زائد ہے، اس وقت بلوچستان میں 900 گھوسٹ اسکول موجود ہیں، یعنی جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے لیکن کاغذی طور پر انکو ظاھر کیا جاتا ہے اور انکے نام سے فنڈ بھی جاری ہوتا ہے۔

یہاں مذاحقہ خیز بات یہ ہے کہ بلوچستان میں صرف گھوسٹ اسکول ہی نہیں بلکہ گھوسٹ ٹیچرز اور گھوسٹ طلبہ بھی ہیں، اس وقت بلوچستان میں 15000 گھوسٹ اساتذہ اور ناقابلِ یقین حد تک تین لاکھ گھوسٹ طلبہ موجود ہیں۔ یعنی 15000 اساتذہ جو کبھی اسکول جاتے نہیں یا وجود نہیں رکھتے انکے نام سے تنخواہ جاری ہوتا ہے اور تین لاکھ بلوچ طلبہ جعلی ناموں سے رجسٹر کیئے گئے ہیں، جنکے ناموں سے فنڈ جاری ہوتے ہیں اور اسی بنا پر بلوچستان میں شرح خواندگی وغیرہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، کہ تعلیم اور اسکولوں کا یہ حال کرنے میں ان سیاستدانوں کا ہاتھ رہا ہے، جن کے سر پر فوج کی دستِ شفقت رہی ہے اور جو فوج کے آشیرباد سے ہی پارلیمنٹ پہنچے ہیں اور وزارتوں سے لطف اندوز ہوئے ہیں، کرپشن کا اجازت نامہ بھی انہیں وہیں سے بلوچستان میں اپنے اپنے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے عوض حاصل ہوا ہے۔

اب بلوچستان میں پہلے سے ہی کرپشن سے تباہ حال خستہ تعلیمی نظام کے بچے کچھے ڈھانچے کو جسطرح سے فوج بوٹوں تلے کچل رہا ہے، اس سے بلوچ طلباء میں مزید مایوسی ہی پھیلے گی۔ بلوچستان میں ابتک درجنوں اسکولوں کو فوجی چوکیوں میں تبدیل کیا جاچکا ہے، جسکی وجہ سے سینکڑوں بچوں کے تعلیمی سال ضائع ہورہے ہیں۔

بلوچستان میں جس تیزی سے اسکولوں کو قبضہ کرکے چوکیوں میں تبدیل کرنے کا رجحان دِکھائی دے رہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ سلسلہ مزید چلے گا اور مزید کئی اسکولوں کو چوکیوں میں تبدیل کیا جائے گا، جو بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کیلئے نیک شگون علامت نہیں، دوسری جانب اسکولوں پر قبضہ اور چوکیوں میں تبدیلی اس بات کا بھی عندیہ دے رہا ہے کہ اب فوج بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اپنے چوکیوں کو پھیلا کر بلوچستان میں جاری آپریشن کو طول دینا اور شدت میں مزید اضافہ لانا چاہتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے فوجی جارحیت کے نشانے پر رہے ہیں، اس کا آغاز پہلے بلوچستان کے جامعات سے ہوا۔ سب سے پہلے بلوچستان کے سب سے بڑے یونیورسٹی، یونیورسٹی آف بلوچستان کو مکمل نیم فوجی دستے فرنٹیئرکور کے ہاتھوں دینے سے ہوا۔ بلوچستان یونیورسٹی کا ناصرف کیمپس بلکہ ہاسٹل بھی فوج کے کنٹرول میں ہے۔ وہاں سے ابتک کئی بلوچ طلباء کو ایف سی اغواء کرکے لاپتہ کرچکی ہے جن میں سے اکثر ابتک لاپتہ ہیں۔

اسی طرح خضدار انجنیئرنگ یونیورسٹی جو اس سے پہلے ڈیتھ اسکواڈ کے حملوں کا شکار ہوچکی ہے اب نیم فوجی چھاونی بن چکی ہے، لسبیلہ یونیورسٹی ہو یا آئی ٹییونیورسٹی یا پھر بولان میڈیکل کالج قوم پرست سیاست اور قوم پرست سیاسی طلباء جماعتوں پر مکمل پابندی ہے اور تعلق کے شبہ میں اداروں کے اندر سے ہی طلباء کو اٹھا کر غائب کرنا معمول کی بات ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں سے واضح طور پر بلوچستان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مکمل ریاستی قوت کے استعمال کے باوجود، ریاست بلوچ آزادی پسند قوتوں کو توڑنے میں ناکام رہی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچ آزادی پسندوں اور پاکستانی فوج کے بیچ جاری یہ جنگ طول اختیار کرتے ہوئے سالوں جاری رہے گی لیکن اس جنگ کے دوران بچوں کے اسکولوں اور ہسپتالوں وغیرہ کو جنگی مقاصد میں استعمال نا لاکر عام شہریوں کے مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے اور بلوچستان کے تباہ حال تعلیمی نظام کو مزید تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔