ریاستی مذہب اور بلوچ کا بدلتا سماج
تحریر: زر جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسین ہے، حقیقت زوال ہے جس کی
تمام کائنات ہر آن تغیر پذیر ہے۔ اجزائے فلکی مسلسل حرکت میں ہیں۔ زمین گھومتی جا رہی ہے۔ چاند کمان سا نکلتا ہے۔ جوان ہو کر ، پھر غائب ہو جاتا ہے۔ دن کا رات میں بدل جانا، صبح شام ہوتی ہے ، بہار خزاں بن جاتی ہے۔ ایسے ہی سماج لہر لیتی چال، کبھی انقلابی تو کبھی بربریت کی تال پر چل رہی ہے۔ کبھی اتنی سست ہوتی ہے کہ صدیوں میں ایک ہی جگہ ٹھہری ہوئی نظر آتی ہے اور کبھی جیسے سرپٹ گھوڑی دوڑ رہی ہے، تمام رائج نظریات و اخلاقیات کو پیچھے غبار میں چھوڑ کر۔
بلوچ سماج ایسی حاملہ عورت ہے۔ جس کا وقت قریب ہے۔ جسے نیند نہیں آتی اور ہر وقت کروٹیں لیتی رہتی ہے۔ ہر عمل و حرکت ایک تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ضخامت سے بچنے کیلئے 2006 سے 2014 کے طوفانی دور (اس پر الگ کتاب لکھی جا سکتی ہے) کے بعد کا نچوڑ لیتے ہیں۔ جب ریاست نے بے قابو بلوچ معاشرے کو دیوانگی کا الزام لگا کر بے ہوشی کا انجکشن لگایا۔ شہر خاموش ہوئے، نگر نگر آگ لگی، گلی گلی خون کی دھاریں بہنے لگیں، بستی اجڑ گئے، گھر مسمار ہوئے، جوان گم ہو کر مسخ شدہ لاشیں بن کر نكلیں۔ جو بچ گئے، کچھ بلوچوں کا مقدمہ لے کر باہر گئے، کچھ اندھے، بہرے اور گنگے ہو گئے۔ کچھ نے شہروں میں جا کر سر چھپایا۔ میدان صاف ہوا۔ فاتح ریاست (یہاں صرف گراؤنڈ کی بات ہو رہی ہے بلوچ تحریک کی نہیں) طاقت کے نشہ میں چور میدان میں اترا۔ دس سال یہاں رہتے ہوئے ہر وہ ہتھکنڈہ اور چال استعمال کیا جس سے بلوچ نہ بلد تھے۔ جہاں کوئی خرابی نظر آئی اسے قابو کیا۔
اس نے وقتی شکست دینے کا نہیں سوچا تھا۔ وہ کئی سالوں کا سوچ کر آیا تھا۔ وہ صرف میدان مارنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ذہنوں پر بھی حکمرانی کا خواہ تھا۔ اس حکمرانی کے لیے اس نے پارلیمنٹ (جو پہلے بھی خاص نہیں تھی) کو یرغمال کیا، جہاں کبھی عوامی مسئلے پہنچتے تھے۔ اب وہاں صرف وہی پہنچتا ہے جو جی حضوری میں یکتا ہو۔ بلوچی ادب، جو بلوچوں کی مزاحمت کی تاریخ تھی_ سے مزاحمت کو نکال کر لب و رخسار کے سحر میں ڈال دیا، شاعر وہی اچھا ہوا جسے ریاستی ایوارڈ ملتے ہوں۔ عوامی سیاست میں اپنے فالتو چھوڑے، جو مزاحمت سے زیادہ سمجھوتہ جانتے ہوں۔ جو خود کو پریکٹیکل کہتے ہوں اور سمجھوتہ کو عقل مندی۔ یونیورسٹیاں جو طلبہ سیاست کا گڑھ تھیں کئی جبر سے تو کئی پروفسروں کی خدمت سے سیاست کا راستہ روکا گیا۔ این جی اوز کے ذریعے عوامی شعور کو اس قدر مسخ کیا کہ ان کی نفسیات لڑنے سے زیادہ مانگنے پر جھک گیا۔ مختلف تقریبات سے، جہاں ایک طرف ادب و سیاست، کتابیں وغیرہ سے ایک خیر خواہ بننے کی کوشش کی تو دوسری جانب شخصیت پرستی کو فروغ دیا، بڑے بڑے ادیب و دانشوروں کی سوچ ان سمیناروں میں دانش وری تک محدود ہوئی۔ متوسط طبقہ پر ان خدمات کے عوض دھن برسنے لگا۔ راتوں رات امیروں میں شمار ہوئے ۔
اپنے پاؤں اچھی طرح جمانے کے بعد اب وہ بلوچوں کو ذہنی و نفسیاتی غلام کر چکا ہے۔ دس سال آواران میں رہنے کے بعد وہاں سے نکلا اب وہ قطعہ پاکستان کا قلعہ ہے۔ لوگ پاکستانی بن گئے ہیں۔ زبان سے نہ مانتے ہوں لیکن ہر عمل و حرکت وہی کرتے ہیں جو دس سالوں میں انھیں سکھایا گیا ہے۔
جس طبقہ نے اسے میدان ہموار کرنے میں مدد کی اب وہ منشیات کا بیوپاری بن گیا ہے۔ جوان نسل کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے تو زبانیں نشہ سے بند کر دیے ہیں۔ اس دوران بلوچ سماج میں مذہب کی پاکستانی تشریح کو لاگو کیا گیا۔
چوں کہ ہمارا عنوان بدلتے بلوچ معاشرے میں مذہب کے اثرات ہیں۔ اس لیے اسی حصے کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
ریاستی مذہب
مذہب کی ہر طرح کی تشریح ممکن ہے۔ اس لیے جب اسلام کو سمجھنے کی بات کی جاتی ہے۔ تو تفسیروں کی ایک بھاری فوج کھڑی نظر آتی ہے۔ ہر کوئی اپنی بات آسانی سے اسلامی کتابوں سے ثابت کر سکتا ہے۔ جنگ لڑنی ہو تو جہادی آیات آ جاتے ہیں ۔ امن کی بات ہو تو انسانیت والے آیات نکلتے ہیں۔ اکثریت میں ہوں تو دین کے غلبہ کا جنوں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت ہو جاتا ہے۔ اقلیت میں ہوں تو لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِىَ دِيْنِ کہتے ہیں۔
تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ مذہب ہر دور میں ریاست کا پسندیده آلہ رہا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اقدار کی جنگ میں مذہب کو لایا گیا۔ ہندوستان کی سر زمین کو مذہب کی چھری سے کاٹ کر دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ انقلاب ایران میں عوامی تحریک میں مذہب کے مطابق عورتیں زینب کی بیٹیاں تھیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد پھر بھی مذہب ہی کے مطابق زینب کی بیٹیاں چادر و چار دیواری میں قید ہو ہوئی ان کا کام گھر سنبھالنا رہ گیا ۔ جو ملک مذہب کے نام سے بنایا گیا ہو۔ جس کا نام ہو اسلام کا قلعہ اور مطلب ہو لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ وہاں مذہب کا کس حال میں ہوگا ؟
پاکستان اور اسلام الگ موضوع ہے اس لیے ہم پاکستانی اسلام اور بلوچ سماج کی بات کرتے ہیں۔
بلوچ سماج کا طوفانی دور تھم گیا۔ عمل و حرکت رک گئی۔ لوگوں میں مایوسی پھیل گئی۔ مایوسی میں مذہب بہترین مامن ہے۔ ریاست نے دور اندیشی سے کام لیا۔ مذہب کے کارڈز آہستہ آہستہ سے میدان میں پھینک دیے۔ لاہور سے لمبی داڑھی، نکلے ہوئے توند، ٹخنوں سے اوپر اٹھی ہوئی شلوار والے بلوچوں کو اسلام سکھانے آئے۔ مایوس انقلابی تبلیغی دوروں میں جانے لگے۔ معاشرے کے طول و عرض میں کچھ ہی سالوں میں مدرسے بنے۔ اجتماعیں ہونے لگیں۔ سنگت ثنا کے شہر کی دیواریں کافر کافر شیعہ کافر کے نعروں سے سج گئی۔ خاران میں ہندو سکون سے آباد تھے۔ لیکن مسلمان نماز کے طریقہ پر لڑ پڑے اور ایک دوسرے کو دین سمجھانے لگے۔
پنجگور، جہاں 2013 تک بہترین انگلش لینگوئج سینٹر تھے۔ طالب علموں کو اردو نہیں آتی تھی لیکن انگریزی میں ماہر تھے۔ طلبا و طالبات اکھٹے پڑھتے تھے، بلوچ ملاؤں کا گڑھ بنا۔ علم و زبان کا قافلہ لوٹا گیا۔ پنسی میں جو سماج سے کٹ تھے۔ جھنیں معلوم نہیں تھا کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے۔ دینِ حق کا دامن تھامتے ہی ان پر اوپر والے کی خاص عنایت ہو گئی۔ ” زكری نمازی بھائی بھائی ہیں؟” کے نام سے کتابیں منظر پر آنے لگیں۔ بلوچ سماج میں اسلام پھیلنے لگا۔ (پھیلنا کینسر، وائرس وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ حیرت ہے اسلام کے لیے بھی یہی لفظ ہے)۔ بازاروں، گلیوں، چوک چوراہوں اور گھروں میں اسلام پہنچ گیا۔ یہ سب اس کی رضا سے ہوا؟ سوسائٹی کا ناکارہ ترین پرت لوگوں کا نمائندہ ہوا، فارغ ترین لوگ تبلیغ پر جانے لگے، مہینہ بھر کا خرچہ مفت ملنے لگا۔ پیش امام انكساری و عاجزی کا پیکر ہوا کرتے تھے۔ محلوں کے سردار بنے۔
پھیلتا اسلام اور زگری کمیوٹی میں خوف کی نفسیات
ذگری فرقے کے ماننے والے کچھ تعداد میں باہر (عمان، ایران، خلیجی ممالک) ملیں گے۔ پاکستان میں مكران کے دیہاتوں، کراچی کے مختلف علاقوں، حب، گڈانی، آواران، جھاؤ، گریش، اور مشکے وغیرہ میں ان کی آبادی بکھری ہوئی ہے۔ یہ فرقہ بلوچ سر زمین کی پیداوار ہے ۔ تمام تقریباً بلوچ ہیں۔ ان کے یہاں مذہب و ثقافت ایک ہی رنگ میں ہیں۔ بلوچ سماج میں دس سالوں کی اسلامائزیشن کے بعد اگر بلوچ کلچر کو گراؤنڈ میں اگر کسی نے اب تک تھاما ہے تو وہ یہ ہیں۔ وطن سے محبت ذگریوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ عبادتیں بلوچی ثقافت کے رنگ میں ہیں۔ چوگان و سپت میں اللّه کی وحدت و نبی کی شان کے ساتھ ظلم و جبر پر مذمت ملتی ہے۔ لاپتہ بلوچوں بچوں کی بازیابی پر دعا ان کے چوگانوں میں ملتا ہے۔ بلوچ دھرتی کو سجدہ کرنے والے لوگ ہیں۔ جو کہیں بھی ہوں بزرگ راتوں میں خاص کر 27 رمضان کو اپنی سر زمین کو چومنے آتے ہیں۔ ہمدردی و اپنائیت کے مجسمے، زیارت شریف میں مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے سے ایسے ملتے ہیں۔ جیسے خون کے رشتے ہوں۔
جتنا حصہ بلوچ سوسائٹی کی بہبودی میں دوسرے بلوچ دے رہے ہیں اتنے ہی ذگری۔ وطن پر مر مٹنا ہو کہ ریاستی جبر پر قہر یہ زمین کے فقیر، ایسے اٹھتے ہیں جیسے کچھار سے شیر۔ تعلیم کا ریشو ان میں زیادہ ہے۔ بلوچ آبادی (خاص کر مكران) میں ان کی تو آبادی تقریباً تیس سے پینتیس فیصد ہوگی (مخصوص فگر نہیں مل رہا کچھ جاننے والوں کے اندازے ہیں)۔ لیکن پاکستان کے تمام یونیورسٹیوں اور انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے مکرانیوں میں یہ ساٹھ فیصد ہوں گے۔ اگر پنجاب کے کسی جامع کے کلاس میں دو مکرانی طالب علم ہوں دونوں نہیں تو ایک لازمی ذگری ہوگا۔ بلوچ طلبہ سیاست میں بساك کے مکرانی ممبرز دیکھے جائیں تو زیادہ تر ذگری ہوں گے۔
دس سالوں میں بلوچ سماج کا گراؤنڈ بدل گیا ہے۔ کچھ لوگ یہ نہیں مانتے لیکن یہی حقیقت ہے۔ دانشور ابھی تک اس سحر میں ہیں کے بلوچ سوسائٹی میں مذہب کا کارڈ نہیں چل سکتا ہے۔ بلوچ تمام مذہب کا تمام احترام کرتے ہیں۔ قلات کی کالی، مستونگ کا شیو، ہنگلاج کا ماتا سب بلوچ کے ہیں۔ اصلیت یہ ہے کہ اب بلوچ کلچر کو اسلامی بنایا جا رہا ہے۔ جو ثقافت اسلامائزیشن سے پہلے تھی۔اب وہ دور جہالت کا ہے۔ اب شادی اسلامی طرز کے ہو گئے ہیں۔ پردہ جو بلوچ کلچرل ڈریس ہے اسے کلچر نہیں مذہب کا حصہ بنایا گیا۔ نامیں جو ہمارے ہیروز اور کلچر کے میراث ہیں۔ پہلے بلوچی تھے اب عربی ہو گئے ہیں اب نام میں بلوچی کلچر کی مہک کو نہیں بلکہ معنی رکھتا ہے یہ دیکھا جاتا ہے۔
ذگری اور نمازی کی شادی بلوچ معاشرے میں کوئی معیوب بات نہیں تھی۔ اب ایسے جوڑے نہیں ملتے ہیں۔ ان دس سالوں میں کئی زگری نوجوان نمازی بن چکے ہیں۔ اب ہر رمضان کے آخری عشرے میں ذگری مسلمان بحث شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مكران میں ذگری نمازی کا تصور نہیں تھا۔ اول تو مذہب کا کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا، اگر کسی سے پوچھا بھی جاتا تو یہی سوال ہوتا تھا۔ “نمازی ہو کہ ذگری؟” اب تو اکثر پوچھا جاتا ہے اور سوال یہ ہوتا ہے۔ “مسلمان ہو کہ ذگری؟” اس سے گراؤنڈ کا اندازہ ہوتا ہے کہ اب عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ ذگری مسلمان نہیں ہیں۔
ذگریوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ زیادہ تر اپنا مذہب نہیں بتاتے ہیں ۔ نوجوان پڑھنے جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ مذہب کا سوال ہی نہ اٹھے کہیں کوئی مذہب نہ پوچھ لے۔ آج تک ذگریوں نے کبھی مذہب کے نام پر تبلیغ نہیں کی ہے۔ اسلامائزیشن کے بعد کئی ذگری نوجوانوں نے مذہب تبدیل کیا ہے۔ اب بلوچ سماج میں بھی یہ اسلام کو ماننے والے خود کو دوسرے مذہب والوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس نفسیات کا اظہار اکثر بلوچ طالب علموں سے بھی ہو جاتا ہے۔
اسلامی بلوچ سماج اور ریاست
ہماری غیر موجودگی میں ریاست کا مذہبی زہر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ بلوچ سماج میں بھی مدرسوں میں بچوں کا ریپ ہو رہا ہے۔ (بی ایم سی سے فارغ ایک ڈاکٹر کے مطابق) ابھی دو ماہ پہلے ایک ہسپتال میں 11 سے 12 سال کے بچے کو لایا گیا تھا۔ جس کے مقعد سے خون بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر کو زیادتی کا گمان ہوا۔ بچے کے والدین ساتھ تھے . والد خود مولوی تھا۔ اس سے معلوم ہوا بچہ مدرسہ کا طالب ہے۔ ڈاکٹر نے اپنا شک ظاہر نہیں کیا اور ٹیسٹ کا کہا۔ ٹیسٹ سے واضح ہوا کہ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن والد نے کیس بنانے سے انکار کیا۔ اس لیے ہم مقام نہیں لکھ رہے کون سا شہر تھا۔ یہ بلوچ سوسائٹی کی حقیقت ہے۔ سراوان و جھالاوان کو ایک طرف کرو۔ مكران جس کو زیادہ تر بلوچ گلوریفائی کرتے ہیں کہ وہاں سرداری نظام نہیں تھا وہاں بلوچ کا شعور بام ثریا تک پہنچ گیا ہے۔ کوئی بلوچ ملا اپنے بیان میں کہتا ہے کہ ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بچے زیادہ پیدا کریں۔ پنجاب کا ملا نہیں بلوچ سماج کا بلوچ ملا۔ ایک ملا آ کر گوادر کے عوامی مطالبات پر نعرہ تکبر کا اضافہ کرتا ہے۔ کیچ میں ملاؤں کا خود ساختہ جرگہ لگتا ہے۔ ایک ملا مذہب کے نام پر جنگ کا نقارہ بجا رہا ہے۔
ایک ملا مذہب کے نام پر جنگ کا نقارہ بجا رہا ہے۔ جب اس پر ایف آئی ار کٹتا ہے۔ تو دوسرا ملا جو خود کو بلوچوں کا اكلوتا رہنما سمجھتا ہے اس کی ایف آئی ار پر انتظامیہ سے شکوہ کرتا ہے۔
اس گھپ اندھیرے میں اگر بساك پنجگور میں جا کر ایک شمع جلاتی ہے۔ یہ ریاست کو آنکھیں دكھانا ہے۔
.
ریاست نے جس طرح مذہب کو بلوچ سماج میں رائج کیا اس کے اثر ظاہر ہیں۔ لیکن وہ خود زخمی ہے۔ آج اس عہد میں وہ چل نہیں پا رہی ہے اور لڑکھڑا رہی ہے ۔ لگتا ہے ابھی زمین بوس ہوئی جاتی ہے۔ اس کے جینے کا سہارا جبر ہی ہے اور کرتی جا رہی ہے۔ ایسے میں اسے مذہب ہی ایک راستہ ملتا ہے جس کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کراچی شہر میں خود سے رسالت کے نام سے ریلیاں نكلتی ہیں۔ کوئٹہ میں نیٹورک بند کرتا ہے۔ کہ لوگ صرف اسی باریں سوچیں کہ ہمارا مذہب خطرے میں ہے۔ اب بلوچوں کو لاہور سے ملا بتانے آ رہے ہیں کہ مكران میں کافر رہتے ہیں۔
خاص شکریہ ذگری دوستوں کا۔
نوٹ :
اول_ میں بلوچستان نہیں بلکہ بلوچ سماج لکھتی ہوں کیوں کہ میں کراچی کے کچھ حصوں کو بھی بلوچ سماج سمجھتی ہوں۔ بلوچ سیاست اور سماج کے بدلتے مزاج کے اثر وہاں پڑتے ہیں۔
دوئم _
بلوچ سماج سے میری مراد بلوچ آبادی کے علاقے ہیں۔ بلوچستان میں پختون سماج کا مزاج الگ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔