عبدالحمید زہری کی کہانی: ایک باپ کھو گیا، خواب بکھر گئے
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کراچی ایک وسیع و عریض شہر جہاں امیدیں اور خواب زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ٹکراتے ہیں، ایک خاندان کی کہانی انسانی حقوق کے جاری بحران کی ایک تلخ حقیقت جس نے اس خطے کو طویل عرصے سے دوچار کر رکھا ہے۔ زہری خاندان کا خضدار سے کراچی تک کا سفر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور تعلیم کی تلاش کے لئے ایک سادہ سی خواہش سے پیدا ہوا تھا، انہیں معلوم نہیں تھا کہ جبری گمشدگیوں کے ظالمانہ عمل سے ان کی امنگیں بکھر جائیں گی۔
جبری گمشدگیوں، ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں کے خوفناک ڈمپنگ کے ساتھ خضدار کے حالات 2010 میں سنگین صورتحال اختیار کرچکے تھے۔ اس دور نے عبدالحمید زہری سمیت خضدار کے بہت سے باشندوں کی زندگیوں میں ایک تاریک باب کا اضافہ کیا۔ لوگ اپنے خاندانوں کی حفاظت، روشن مستقبل و حفاظت کے لئے کراچی منتقل ہونے کا مشکل فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔
تاہم جبری گمشدگیوں کے خوفناک عمل نے عبدالحمید زہری کا پیچھا کیا اور 10 اپریل 2021 کے اس اندوہناک رات عبدالحمید زہری کو کراچی میں گھر سے جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ آج تک لاپتہ ہیں، ان کی بیٹیاں سعیدہ حمید اور مہروز کو ایک ایسے ڈراؤنے خواب میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے وہ بیدار نہیں ہو سکتے۔
اس ڈراونا خواب نے سعیدہ اور مہروز کی زندگیوں کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ وہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح اسکول جانے کے بجائے اب اپنے پیارے باپ کی تلاش میں دن سڑکوں، احتجاجی کیمپوں میں گزارتے ہیں، ان کا یہ سفر انہیں عدالتوں کا چکر کاٹنے پر مجبور کرتی ہے، وہ انصاف کی تلاش عدالتوں، احتجاجی مظاہروں اور کیمپوں میں، کرتے ہیں، جہاں وہ ان لاتعداد لوگوں کی آوازوں میں شامل ہوتے ہیں جو ایسے ہی اذیت سے دوچار ہیں۔
وہ دن گزر گئے جب اسکول کی کتابیں ان کے ہاتھ ہوتی تھیں۔ اب ان کے ہاتھوں میں والد کی تصویر ہے جسے وہ تھامے ہوئے ہیں، جو ان کی زندگی میں چھوڑے گئے گہرے خلاء کی ایک دردناک علامت ہے۔ ان کے بہتر مستقبل کے خواب، جو تعلیم کے مواقع کے سے روشن ہو گئے تھے، وہ اپنے والد کی جبری گمشدگی کی تکلیف دہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں۔
عبدالحمید زہری کے خاندان کی کہانی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ یہ انسانی حقوق کے وسیع تر بحران کی واضح علامت ہے جو پاکستان میں بدستور جاری ہے۔ جبری گمشدگیاں خاندانوں کو بکھر دیتی ہیں، انہیں ہمیشہ کے لیے اذیت، درد، تکلیف اور انتظار کی حالت سے دو چار کرتی ہے، اور انصاف کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔
سول سوسائٹی، سیاسی و سماجی شخصیات، حکومتی حکام اور عالمی برادری سے اپیل ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ سعیدہ سمیت اس جیسے دیگر خاندانوں کو اپنے پیاروں کی تلاش کے اذیت برداشت کرنے سے چھٹکارا دلانے کے لئے لاپتہ افراد کے خاندانوں کی آواز سُنی جانی چاہیے اور اس گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کا احتساب ہونا چاہیے۔
جیسا کہ ہم زہری خاندان کی حالت زار اور تکالیف کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف ان کی کہانی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر گھر کی کہانی ہے۔ سعیدہ اور مہروز اپنے والد کی بازیابی کے مزاحمت کررہے ہیں اور وہ چاروں طرف پھیلے اندھیرے میں امید اور عزم کی علامت بن کر کھڑے ہیں۔ اُن کی غیر متزلزل عزم اور لاپتہ افراد کی کہانیاں ہمیں مشترکہ طور پر آواز اٹھانے اور اس گھناونے عمل کے خلاف مشترکہ طور کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں کہ جبری گمشدگیاں ایک المناک حقیقت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔