اختر مینگل کے نام کھلا خط
تحریر: حمّل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جناب اختر مینگل صاحب!
آپ کے والد سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیر بخش مری کے بعد بلوچ قوم خود کو سیاسی طور پر یتیم (چوری) محسوس کرتی ہے جس کو مزید تقویت ڈاکٹر عبدالحی بلوچ نے دی تو رہی سہی کسر آپ کی دکھاوے کی قوم پرستی و دوغلا پن نے پوری کردی۔
سب جانتے ہیں کہ اس وقت آپ ایک جنگ سے گزر رہے ہیں اور یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ جنگ آپ پر ریاست کی بالادستی و مہربانیوں کی وجہ سے مسلط کی گئی ہے۔
یاد رہے! اس جنگ میں بلوچ قوم آپ کا ساتھ دینے کیلے تیار ہے اور بھرپور ساتھ دیگی۔ ہر عام و خاص کی زبان پر سے آپ کی جیت اور آپ کی حریف شفیق مینگل کی ہار اور زوال کی دعائیں مانگی جارہی ہے۔
البتہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ آپ جتنے اچھے قوم پرست اور بلوچ پرست بننے کی کوشش کرتے ہیں اتنے ہے نہیں۔ نا آپ اورنا ہی آپ کا پارٹی۔ سب پیٹ کے پجاری اور اپنے اپنے غموں کے مارے ہیں۔
تاہم آپ جناب سے اتنی امید ہے کہ خیر خواہی نہیں تو بلوچ قوم کی بد خواہی اور زوال پذیری بھی آپ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ اسی لئے ساحل مکران سے لیکر کوہ سلیمان تک کے تمام بلوچ آپ کو شفیق الرحمن مینگل سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
وہ شفیق کو اس جنگ میں ہارتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جنہوں نے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں تو کہی بے گناہوں کو سالہاسال نامعلوم مقام پر قبر جیسی اندھیری جگہوں پہ بھوکے پیاسے تڑپایا۔
شفیق مینگل قوم کا غدار ہے اور بلوچ ماں بہنوں کو بے آبرو کرنے والا ظام شخص ہے۔ یہ وہ منحوس ہے جسکی وجہ سے بلوچ قوم نے ایک جیتی ہوئی جنگ ہار دی اور اپنے لخت جگروں کی لاشیں اٹھائی۔
توتک سے محمد تاوہ پارود بولان و شمبلاخ تک کے واقعات اب بھی بلوچ قوم کے دلوں پر زخم کی صورت میں نقش ہیں۔
امید کرتے ہیں کہ آپ بھی ان واقعات کو نہیں بھولے اور آپ کا خون بھی دوڑنے کے ساتھ ساتھ ٹھاٹھیں مارتا ہوا اس ظالم شخص کو اسکی آخری انجام تک پہنچانے کیلئے پرجوش ہے۔
محترم سردار!
سرداری نظام پر لوگوں کی باتیں مت بھولوں۔ اس جنگ میں جہاں ایک مہینے سے بھاری ہتھیار استعمال کرنے کے خبریں پھیل رہی ہے وہی صرف عام عوام اور مسافروں کی زخمی یا ہلاک ہونے کی خبریں بھی۔
دونوں فریقین کی جانب سے بھاری ہتھیار استعمال ہونے اور انکی لاپتہ ہونے پر عوام میں تشویش اور شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ لحاظہ پنی ساکھ اور لوگوں کی بھروسے کو سامنے رکھتے ہوئے سرداری نظام کو مزید اس طرح کے جھوٹے دعووں سے دلبرداشتہ نا کریں۔
خدارا عوام کے جزبات کے ساتھ کھیلنا بند کردیں اور اس جنگ کو آخری اور حتمی جنگ کی صورت دیتے ہوئے مارو یا مارو۔
کہتے ہیں جنگ اچھی بات نہیں مگر کچھ مسئلے جنگ کے بغیر حل نہیں ہوتے۔ جسم میں پیدا کچھ ابھار اور ناسوروں کا علاج کاٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
شفیق مینگل بلوچ قوم کا وہ مسئلہ ہے جسے ختم نہیں کروگے تو یہ ناسور پھر سے شدید درد کرنا شروع کردیگی۔ پھر سے درمان مانگے گی
اور پھر سے پوری جسم (بلوچ قوم) میں ایک تشویش ناک حالت پیدا کریگی۔
آپ سے دست بستہ عرض ہے کہ بلوچ قوم پر یہ اولی و آخری احسان کردو کہ اس ناسور کو صفحہ ہستی سے مٹاؤ۔۔۔
یا تو پھر اپنے ٹھنڈے پڑے خون کی برملا اعلان کرتے ہوئے جنگ کو مکمل طور پر ختم کردو تاکہ عوام اور غریب مسافر وڈھ و خضدار کے علاقوں سے محفوظ طریقے سے سفر کرسکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔