مستونگ کی ایک آگ برستی شام
تحریر: شہسوار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہزاد کے شہادت کی یادیں تازہ تھیں، میں بولان کے بلند بالا پہاڑوں میں گرمی سے چور پانی کے ندی کے پاس سایہ دار درخت کے سائے میں بیٹھ کر سوچ رہا تھا کیسے شہزاد جیسا دوست ہم سے بچھڑ گیا جس کی یادیں رات کو سونے نہیں دیتی، جس کی باتوں میں شہید وحید عرف محترم کی مٹھاس تھی وحید جو چلتن کے دامن میں پروفیسر صالح محمد شاد صاحب کے گہرے شخصیت کے سائے میں پرورش پایا تھا جس کے صبر اور تحمل کو دیکھ کر بہ آسانی اندازہ ہوتا کہ آپ کے والدین نے آپ کے تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ایسے ہی جنرل جیسے عظیم استاد کے بہادری کے داستان تیری اور کنڈاو کی فضائیں ورز چلتن کے بالاد کو پہنچا دیتی ہے۔ آج کا موضوع بھی مستونگ کے علاقے کلی شادی خان میں ایک آگ برستی شام کے واقعہ کی ہے جسکی ایک طرف پہلین سنگت شکور کی یادیں ہیں دوسری طرف وحید عرف محترم کے بچپن سے وابستہ یادیں ہیں۔
اگست کا مہینہ جو بلوچ قوم کیلئے ایک سیاہ ترین مہینہ ہے جس میں بلوچ قوم نے ریحان جیسے بہت سے فرزند کھوے ہوئے ہیں جن کی خلا صدیوں تک پوری نہیں ہو سکتی اگست کی ایک ایسی داستان جو مستونگ روڈ کے کلی شادی خان میں پیش آیا جہاں اک ماں کے دو وطن زادے سلمان بلوچ اور صلاح الدین بلوچ بہادری کیساتھ پہلین امیرالمک کے آخری کولی کی فلسفہ کو زندہ رکھتے ہوئے ہمیشہ کیلئے تاریخ کا حصہ بن کر امر ہوگئے۔
سلمان بلوچ جو آج سے تقریبا 26 سال قبل گل محمد کے گھر میں پیدا ہوئے جنہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ولی خان مستونگ روڈ سے حاصل کی ایف ایس سی اور بی ایس سی ڈگری کالج مستونگ سے مکمل کی 2018 میں آپ نے شادی کی اور خدا تعالٰی نے آپ کو ایک بیٹا اور ایک بیٹی جیسی نعمت سے نواز دیا، آپ کے چھوٹے بھائی صلاح الدین بلوچ جو 22 سال قبل 1992میں پیدا ہوئے جنہوں نے اپنا ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ولی خان مستونگ روڈ سے مکمل کی ایف ایس سی اور بی ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ سے مکمل کی۔
مجھے یاد ہے سلمان جو ایک ہنس مک سا شہزادہ تھا مسکراہٹیں بکھیرتے رہنا اس کا کام تھا ماں باپ کی خدمت میں سب بھائیوں سے پیش پیش تھا ایک چھوٹی سی عمر میں ضعیف والد کے کاندھوں کا بوجھ کم کرنے کی خاطر تفتان سے کوئٹہ روٹ پر اپنے روزگار کی مصروفیت میں مگن تھا سلمان اور دوسرے بہن بھائیوں کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی اس کی اہم ذمہ داریوں میں شامل تھے، وہ ماں کی آنکھوں کا تارا بھی تھا۔ دوسری طرف صلاح الدین جو ڈگری کالج مستونگ میں بی ایس سی کا طالب علم تھا کتابوں میں مشغول رہنا اور فٹبال کھیلنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا، جو محلے کے بچوں سے بڑے شفقت اور پیار سے پیش آتا تھا غریبوں کا ہمدر بننا اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پورا کرنا صلاح الدین کے اولین ترجیحات میں شامل تھے۔ صلاح الدین اکثر اپنا وقت اپنے چچا پروفیسر صالح محمد شاد صاحب کے ساتھ گزارا کرتے تھے ہر وقت آپ کو شاد صاحب سے کچھ سیکھنے کا جستجو رہتا تھا علاقے میں اکثر لوگ صلاح الدین کو اس کے خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پسند کرتے تھے جب بھی آپ علاقے کے فٹبال گراونڈ میں نہیں ہوتے تو گرؤنڈ میں موجود لوگ آپ کی کمی محسوس کرتے ہوئے آپ کو ڈھونڈتے تھے اور آپ کے بنا کھیل کے میدان میں وہ خود کو اکیلا سمجھتے تھے۔
کسی کو کیا خبر تھی کہ تفتان سے آئے ہوئے تھکاوٹ سے چور سلمان اور محلے میں سب کا دوست صلاح الدین کا 24 اور 25 اگست کی درمیانی شام آخری شام ہو گی جن سے ہم دوبارہ نہیں مل سکیں گے، یہ 25 اگست کی وہ آخری درمیانی شام تھی جس میں سلمان اور صلاح الدین ہم سے ہمیشہ کیلئے دور جارہے تھے کسی کو کیا خبر تھی بوڑھے والدین کا سہارا بننے والا سلمان کل کی صبح ہمارے ساتھ نہیں بلکہ شہید وحید کے ساتھ ہوگا شاید ماں نے بھی یہی سوچا ہو گا کہ بیٹے تہک چکے ہے آرام کرے صبح جی بھر کے شہزادوں سے بات ہو گی۔
یہی 25 اگست کی آگ برسانے والی سیاہ رات تھی جہاں رات بھر زور شور سے بارش برس رہی تھی جہاں پنجابی ریاست نے کلی شادی خان مستونگ روڈ میں 25 اگست کی رات 11:30 سے 12:00 بجے کے درمیان سلمان اور صلاح الدین کے گھر کو پاکستانی سیکورٹی فورسز، سی ٹی ڈی اور ایس ایس جی کمانڈوز سمیت باری نفری کے ہمراہ علاقے کے درجنوں مخبروں کے ساتھ معاصرہ کر کے گھر پر حملہ آور ہو کر گھر پر جدید ہتھیاروں سے آگ برسانے لگے، ہواس باختہ دشمن نے حسب معمول گھر موجود عورتوں اور بچوں کو رہنی اذیت دے کر شدید زد کوپ کی آپ کو مراعات کی لالچ دے کر گرفتاری دینے کی کوشش کی مگر آپ نے دشمن کے فرسودہ سوچ کو ناکام بنا کر جنگ کو ترجیح دے کر کے شہید ہونے کو ترجیح دی ایسے ہی سلمان اور صلاح الدین بلوچ نے دشمن سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کی ایک طرف بارش کی تیز بوندیں دوسری طرف زخمی فوجی اہلکاروں کی چیخ پکاریں ایک طرف پرٹک آباد پائی پاس کے دو کلومیٹر سے زائد کے ایریرے کو گیراؤ کرنے والا جدید اسلحوں سے لیس پاکستانی فوج تو دوسری جانب سفر کی تکن سے چور دو وطن زادے جنہوں نے دشمن کے اسلحوں کو قبضے میں لے کر تقریبا رات 11:30 بجے سے صبح پانچ بجے تک دشمن سے دو بدو لڑتے رہے۔ سلمان کے آخری وٹسپ میسجز کے مطابق ایک طرف فورسز کا اپنے اعلی آفیسران سے ہیلی کاپٹروں کی کمک بھیجنے کی چیخ پکاریں دوسری طرف انہیں اعلی آفیسران سے ملنے والی جواب کہ شدید بارش اور موسم کے خرابی کے باعث ہیلی کاپٹروں کی مدد نہیں پہنچ سکتا کوشش کریں گولہ بارود زیادہ استعمال کریں اور ان کے والدین اور دوسرے اہلخانہ کو مارے تاکہ پریشر میں آکر گرفتاری دے ایسے ہی کر کے فورسز نے آپ کے والد اور چچا کو ڈھال بنانے کی کوشش کی مگر آپ نے اپنے بہترین حکمت عملی کے تحت فورسز کے چار اہلکاروں کو گرفتار کرکے ہلاک کر دیا اور ان کے قبضے سے ملنے والے اسلحہ اور گولا بارود سے ہی ان ہی کے ایس ایس جی کمانڈوز کو پست ہونے پر مجبور کر دیا ایسے ہی ہواس باختہ دشمن نے آپ کے والد گل محمد اور چچا پروفیسر صالح محمد شاد کو شدید زخمی کر گئے بارود سے لت پت جسم کے وائرل ہونے والے تصاویر اب بھی میڈیا کے رکاڈ پر موجود ہے اور آپ دشمن کے ساتھ دو بدو لڑتے ہوئے پانچ سے چھ گھنٹوں تک طویل دو بدو جنگ میں درجنوں فورسز ہلاک ہوگئے سلمان اور صلاح الدین نے شہید امیرالمک کے آخری کولی کے فلسفہ پر عمل پیرا ہو کر وطن ہمارے سپرد کر کے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔
جب بھی سفر کی تھکاوٹ کے بعد تھکن سے چور دوستوں کے ہمراہ کسی سائیہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہوں تو موبائل آن کر کے اس آگ برستی شام کی تصویری ایلبم کو دیکھتا ہوں اور پروفیسر صاحب آپ کے والد کی زخمی حالت میں جو تصاویر دیکھنے کو ملتے ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کتاب دوست لوگوں سے کتنا خوف زدہ ہے پروفیسر صالح محمد شاد صاحب جو گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ کے سابقہ پرنسپل رہے اور اب فری آف کاسٹ یونیورسٹی آف بلوچستان سب کمیپس مستونگ میں بلوچ قوم کے نوجوان کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اب جو میں گھر سے دور ہوں تو ماں کی مہر کے ساتھ ساتھ یادوں کی دریچہ میں اولین ناموں میں شاد صاحب کا ہے جن کی خوبصورت بالاد اور نا ختم ہونے والی باتیں مجھے اور بھی قوت بخشتی ہے آنے والے دن اور مستقبل کیلئے مجھے تیار کر دیتی ہے بقول ڈگری کالج مستونگ کے سابقہ اسٹوڈنٹ کے جب وہ شاد پروفیسر صالح محمد شاد کے گھر سلمان او صلاح الدین کے شہادت پر تعزیت کرنے اور پروفیسر صاحب اور شہیداء کے والد کے حال پرسی کرنے گئے تھے تو پروفیسر صالح محمد شاد صاحب نے اپنے کمرے میں موجود کتابوں کی طرف اشارہ کیا تھا کہ یہ میرے گھر میں موجود اسلحہ اور گولہ بارود ہے جن سے ریاست خوف زاد تھا انہی کی وجہ سے گزشتہ دنوں میرے گھر پر پاکستانی سیکورٹی فورسز حملہ آور ہو کر سلمان اور صلاح الدین کو شہید کر کے مجھے میرے بھائی گل محمد ایڈووکیٹ چیف عطا اللہ بلوچ، ایڈوکیٹ نجیب بلوچ، سیف اللہ بلوچ، مجیب الرحمن بلو، براہمداغ بلوچ کو ہراست کے بعد لاپتہ کر دیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔