کوہلو لائبریری کو ڈسٹرکٹ چیئرمین کا دفتر بنانا تعلیم دشمنی کی واضح مثال ہے ۔ بساک

162

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے ہفتے کے روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان جو ایک امیر ترین، جغرافیائی حوالے سے اہم اور سٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے مسائل کا گڑھ بن چکا ہے جہاں بنیادی انسانی سہولیات ناپید ہیں۔ پینے کے صاف پانی سے لیکر تعلیم اور صحت جیسے سہولیات یہاں کے باشندوں کیلئے ایک خواب بن چکے ہیں صوبائی حکومت اور اپوزیشن سمیت عالمی سامراجی کمپنیاں اور وفاق دونوں ہاتھوں سے بے رحم لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں جبکہ مقامی لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں مگر دل کو روؤں یا جگر کو پیٹوں کے مصداق، کوئی اپنی فریاد لیکر جائے تو کہاں؟ کوہلو جو ایک پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں نہ صحت کے سہولیات ہیں نہ تعلیم کے ، پورے ضلع میں ایسا تعلیمی ادارہ وجود نہیں رکھتا جہاں غریب کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں ۔

انہوں نے کہاکہ کوہلو جو ایک بڑی آبادی پر مشتمل علاقہ ہے جن میں ماوند، کاہان، ہوسڑی ، جنت علی شامل ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آباد ہیں لیکن بدقسمتی کے ساتھ ان علاقہ جات میں بنیادی تعلیم سے لے کر اعلٰی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سینکڑوں گھوسٹ اسکولیں سرکاری کاغذوں میں چل رہی ہیں لیکن ان علاقوں کی بچے بچیاں اسکول اور دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں اور بیشتر بچے اپنے بچپن ہی مزدوری اور دیگر پیشوں سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوش قسمتی سے اگر کوئی طالبعلم میٹرک تک تعلیم حاصل بھی کر لیتا ہے تو انٹرمیڈیٹ کےلیے کوہلو شہر کی جانب جاتا ہے لیکن ڈگری کالج فعال نہ ہونے کی وجہ تعلیم یہی سے ترک کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبات کےلیے پورے خطے میں وومن کالج سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ مگر جب پچھلے سالوں لائبریری کا اعلان ہوا تو وہاں کے علم دوستوں کو یہ خوشی محسوس ہوئی کہ کم از کم ایسی جگہ تعمیر ہورہی ہے جہاں سکون سے طلبا بیٹھ کر پڑھ سکیں۔

طلباء رہنماؤں نے کہاکہ شاید آپ حضرات کو بھی میڈیا کے توسط سے معلوم ہوا ہوگا اس پبلک لائبریری کو علم دشمن عناصر نے ڈسٹرکٹ چیرمین کا دفتر بنایا جو کہ خلاف قانون ہے۔ یہ لائبریری کلچرل ڈیپارٹمنٹ کی ملکیت ہے جنہوں نے کوہلو کے ڈپٹی کمشنر کو تحریری صورت میں حکم نامہ جاری کیا کہ لائبریری کو قبضہ گروہ سے واگزار کراکے کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرے۔ مگر ڈپٹی کمشنر نے بھی ایک ذمہ دار حکومتی ادارے کے حکم نامے کو ہوا میں اچھال کر اسے ڈسٹرکٹ چیرمین کے حوالے کیا۔

مزید کہاکہ اس قبضہ گروہ کے خلاف وہاں کے طالبعلموں نے احتجاجی طریقہ کار سمیت ضلعی ذمہ داران کو ہر طرح سے گوش گزار کرانے کی کوشش کی۔ مگر ابھی تک لائبریری قبضہ گروپ کا دفتر بنا ہوا ہے۔ بحیثیت طلبا نمائندہ تنظیم بلوچستان کے تعلیمی مسائل سمیت لائبریری کیمپین ہمارے تنظیمی پالیسیوں کا حصہ ہے اور ہم بحثییت ادارہ کوہلو پبلک لائبریری کے قبضے کی شدید الفاظ میں نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اس طرح کے تمام علم دشمن اعمال کے خلاف سیاسی مزاحمتی طریقہ کار پر یقین رکھتے ہیں اگر لائبریری کو جلد فعال نہیں کیا گیا تو تنظیم احتجاج عمل کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہاکہ کوہلو کے باشعور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میر مٹھا خان، صورت خان مری، شیر محمد مری جیسے اکابرین کے علم دوستی اور دانشورانہ حیثیت کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کر علم دشمن عناصر اور قبضہ گروپ کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے نسلوں کی ترقی اور علمی راہ پہ رکاوٹ بننے والوں کی خلاف سیاسی مزاحمت کریں۔