چین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر جدہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں چین بھی شرکت کرے گا۔ اس اجلاس میں چین کی نمائندگی نمائندہ خصوصی لی ہوئی کریں گے۔
عرب نیوز کے مطابق چینی وزارت کے ترجمان وانگ وین بن نے جمعے کو پریس بریفنگ میں کہا: ’چین بحران کے سیاسی حل کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
کیئف اور مغربی سفارت کاروں کو امید ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں اور تقریباً 40 ممالک کے دیگر اعلیٰ حکام کی جدہ میں ہونے والی ملاقات میں مستقبل میں مسٔلے کے پرامن تصفیے کے لیے کلیدی اصولوں پر اتفاق کیا جائے گا۔
اس اجلاس میں چین کی شرکت مملکت کے لیے ایک سفارتی فتح مانی جا رہی ہے کیونکہ چین کو جون میں کوپن ہیگن میں ہونے والے مذاکرات کے پچھلے دور میں مدعو کیا گیا تھا لیکن بیجنگ نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
اس اجلاس کے انعقاد پر ایک جرمن عہدیدار کے بیان میں کہا گیا ہے کہ’ سعودی سفارت کاری نے بیجنگ کو جدہ مذاکرات میں شرکت کے لیے قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘
سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے رپورٹ کیا ہے کہ ’مملکت کو توقع ہے کہ یہ مذاکرات سیاسی اور سفارتی ذرائع سے بحران کے حل کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت اور تعاون کو تقویت دیں گے۔‘
جدہ کے اس اجلاس کے حوالے سے یوکرین اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ ’ریاض عالمی منظر نامے میں ایک نمایاں سفارتی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘
واشنگٹن میں سٹیمسن سنٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر یون سن کہتے ہیں کہ ’جدہ اجلاس بیجنگ کے لیے سعودی عرب کی میزبانی زیادہ قابل قبول ہے کیونکہ اسے مغرب کے جانبدار کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔‘
ادھر یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدارکا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ’دنیا کے ان سٹیک ہولڈرز کو اکھٹا کیا ہے جہاں (یوکرین کے) اتحادی اتنی آسانی سے نہیں مل پاتے۔‘
10 نکاتی فارمولا
دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے بدھ کو کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ یہ اقدام رواں موسم خزاں میں دنیا بھر کے رہنماؤں کی ایک ’امن سربراہی کانفرنس‘ کی صورت میں سامنے آئے گا جس میں ان اصولوں کی توثیق کی جائے گی جو کہ تصفیہ کے لیے ان کے اپنے 10 نکاتی فارمولے پر مبنی ہے۔
زیلنسکی کے فارمولے میں یوکرین کی علاقائی سالمیت کا احترام اور روسی فوجوں کا انخلا شامل ہے تاہم ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس نے یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کو ہمیشہ کے لیے الحاق کر لیا گیا ہے۔
یوکرین، روسی اور بین الاقوامی حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت یوکرین اور روس کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ جنگ بدستور جاری ہے اور کیئف جوابی کارروائی کے ذریعے علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم یوکرین کا مقصد سب سے پہلے اپنے مغربی حمایتیوں کے علاوہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک جیسے انڈیا، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ذریعے سفارتی حمایت سے ایک بڑا اتحاد بنانا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر عوامی طور پر غیر جانبدار رہے ہیں۔
ادھر رواں ہفتے کے آغاز پر کریملن کے بیان میں کہا گیا کہ وہ جدہ اجلاس پر نظر رکھے گا تاہم ماسکو کیئف کے ساتھ امن مذاکرات کا براہ راست کوئی امکان نہیں دیکھتا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کو کہا: ’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اہداف طے کیے گئے ہیں اور کن باتوں پر بات کی جائے گی۔ پرامن تصفیہ کو فروغ دینے کی کسی بھی کوشش مثبت انداز میں لیا جائے گا۔‘
تاہم مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں صدر زیلنسکی کے تمام نکات کی توثیق کا امکان بہت کم ہے لیکن وہ کم از کم اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت علاقائی سالمیت میں درج اصولوں کی واضح حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی بھی بیجنگ کی زیرقیادت امن اقدام کو قبول کرنے کے بارے میں محتاط رہے ہیں اور تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ چین اس کانفرنس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔
سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کے سربراہ جون الٹرمین کا کہنا ہے: ’میں چینیوں کو کسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ بیجنگ کی شرکت ممکنہ طور پر اپنے وقار اور مشرق وسطیٰ اور گلوبل ساؤتھ ممالک کے سامنے اپنا قد کاٹھ پیش کرنے کے لیے ہے۔‘
گلوبل ساؤتھ ممالک پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں مغربی حکام نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دیں گے کہ روس کی جانب سے بحیرہ اسود کے ذریعے یوکرین کے اناج کو محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے اور یوکرین کی بندرگاہوں پر فضائی حملے کیے جانے کے بعد سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یورپی یونین کے ایک اور سینئر عہدیدار نے کہا: ’ہم یقینی طور پر اس بات کو جدہ اٹھائیں گے اور سب پر واضح کریں گے۔‘
مذاکرات کی تیاری کے دوران یوکرین نے بحیرہ اسود پر روسی بحری اہداف کے خلاف ڈرون حملہ کیا جس سے جنوبی روسی بحری اڈے میں لنگر انداز ایک جہاز کو نقصان پہنچا۔
یوکرین کے ایک سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ یوکرین اس زون میں کسی بھی روسی جنگی جہاز پر حملہ کر سکتا ہے۔
یوکرین کی وزارت خارجہ نے ایک فوجی جہاز کی ویڈیو فوٹیج شائع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک اور روسی جہاز تباہ ہونے کے دہانے پر ہے۔‘
حملے کے بعد یوکرین کے صدارتی معاون میخائیلو پوڈولیاک نے کہا: ’بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کی موجودگی کو ختم کر دیا جائے گا اور یوکرین عالمی تجارت کے لیے بحیرہ اسود میں آزادی اور سلامتی کو یقینی بنائے گا۔‘