وڈھ میں کشیدگی – ٹی بی پی اداریہ

380

وڈھ میں کشیدگی

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں قلات ڈویژن کے مرکزی شہر خضدار کے تحصیل وڈھ میں ایک مہینے سے حالات کشیدہ ہیں۔ مینگل قبیلے کے سردار اسد مینگل و بلوچستان نیشنل پارٹی کی سربراہ سردار اختر مینگل اور متحارب فریق شفیق مینگل ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں اور جھڑپوں میں بھاری اسلحہ کا آزادانہ استعمال کررہے ہیں۔ شدید جھڑپوں کے باعث وڈھ کے لوگ محصور ہوچکے ہیں اور کوئٹہ – کراچی ہائی وے وڈھ کے مقام پر گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے مکمل بند ہوچکا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کا الزام ہیکہ شفیق مینگل خفیہ ایجنسیوں کی ایماء پر سردار اختر مینگل کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بی این پی شفیق مینگل کے خلاف بلوچستان بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کرچکا ہے اور حکومت بلوچستان ؤ قبائلی عمائدین کی کوششوں کے باجود وڈھ میں کشیدگی بتدریج شدت پکڑ رہا ہے اور شفیق مینگل کے لوگ کوٹ مینگل میں سرداراختر مینگل کے گھر کو راکٹوں سے نشانہ بنارہے ہیں۔

بلوچستان میں سیاسی جماعتیں تسلسل سے الزامات لگاتے رہے ہیں کہ پاکستان کے ایجنسیز نے بلوچ انسرجنسی کو کاونٹر کرنے کے لئے دو ہزار آٹھ سے بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیئے ہیں، جو سینکڑوں سیاسی کارکنوں کے جبری گمشدگی اور قتل میں ملوث ہیں اور انہی میں سے ایک ڈیتھ اسکواڈ شفیق مینگل کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جو مسلح دفاع بلوچستان و حق نا توار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کررہے ہیں۔

مسلح دفاع بلوچستان، جھالاوان عوامی پینل اور حق نا توار شفیق مینگل کی سربراہی میں قلات ڈویژن اور بالخصوص خضدار میں ریاستی اداروں سے زیادہ طاقت رکھتے تھے۔ وہ مبینہ طور پر اغوا برائے تاوان، جبری گمشدگیاں اور قتل کے بےشمار واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ لیویز فورس کے روکنے پر موقع پر موجود نو لیویز اہلکاروں کو قتل کرنے میں ملوث ہیں۔ سندھ پولیس کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق شفیق مینگل کے تعلقات لشکر جھنگوئی سے بھی ہیں اور شکارپور حملہ، جس میں ساٹھ ( 60 ) لوگ مارے گئے اُس خودکش حملہ آور کو وڈھ میں پناہ دی گئی تھی اور شفیق مینگل کے لوگوں نے اسے شکار پور تک پہنچایا۔

بلوچستان کی پارلیمانی جماعتیں مختلف مواقع پر ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف پاکستان کے پارلیمان اور احتجاجوں میں آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن بلوچستان میں تب تک ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف تحریک منظم ہونا مشکل ہے جب تک پارلیمانی جماعتیں اِن ڈیتھ اسکواڈز کو اپنے پارٹیوں میں پناہ دینا بند نہ کردیں، چاہے وہ مبینہ ڈیتھ اسکواڈ سربراہ قلات میں کوہی خان مینگل و قمبر خان مینگل ہوں، مشکے میں علی حیدر محمد حسنی ہوں، مستونگ و کوئٹہ میں نور احمد بنگلزئی ہوں یا کیچ میں راشد پٹھان و میر اوتمان ہوں۔

ایک علاقے میں ڈیتھ اسکواڈ کی مخالفت اور دوسرے علاقے کے ڈیتھ اسکواڈ کو پارٹی میں پناہ دینے سے اُن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ پارلیمانی جماعتوں کو بلا تفریق ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی مخالفت کرنا ہوگا تبھی بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف تحریک منظم ہوسکتی ہے۔

ریاستی اداروں کو بھی سمجھنا پڑیگا کہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے سیاسی تحریکیں ختم نہیں کئے جاسکتے اور بلوچ قومی حقوق دیئے بغیر بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔