دشمن ٹوٹ چکا ہے ۔ سارنگ بلوچ

620

دشمن ٹوٹ چکا ہے

تحریر: سارنگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گوریلا جنگ میں نفسیاتی جنگ میں دشمن کی ذہنی اور جذباتی حالت کو نشانہ بنانے کے لیے مختلف طریقے کار استعمال کئے جاتے ہیں، جس سے الجھن، ہمیشہ خوف اور حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بلوچ مسلح مزاحمت کار تنظیمیں خاص طور پر بی ایل اے کے خصوصی ونگ مجید بریگیڈ کے خودکش ونگ حملوں نے مؤثر نفسیاتی جنگ کو بروئے کار لایا ہے، جس سے دشمن خود کا چھپانے اور اگلے ٹارگٹ کو ناکام بنانے کا کوشش کرتا ئے یہ معصوم بلوچ عورت اور خاص کر طالبعموں کو جبری گمشدگی کے بعد انہیں دہشت گرد ظاہر کرتا ہے اور اُنکی گرفتار کا دعوی کرتا ہے اور دوسرے جانب معصوم لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرکے انہیں آپرشن کے دوران مارنے کا دعوا کرتا ہے یہ سب دشمن کے نفسیاتی شکست کے آثار ظاہر کرتے ہیں۔

نفسیاتی جنگ نے تاریخ میں گوریلا جنگوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہی ہتھیار سب سے زیادہ طاقتور اور اہم ہتھیار ہے جو دشمن کو شکست قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے اور نفسیاتی جنگ ہی گوریلا وار کے نتائج کو بیان کرتا ہے اور اپنا پوزیشن ظاہر کرتا ہے۔

بلوچ مسلح مزاحمت کے تناظر میں، دشمن کی نفسیاتی عدم استحکام واضح ہو رہا ہے، کیونکہ دشمن ہمیشہ اپنے جانی و مالی نقصان کو چھپاتا ہے اور اُن معلومات کو دبانتا ہے اور اپنے فورس میں حوصلے کو گرنے سے روکنے کے لیے میڈیا کوریج کو کنٹرول کرتے ہیں تاکہ میڈیا بھی ان نقصانات کو نہ دکھئے۔ بلوچ مزاحمت کی بڑھتی ہوئی طاقت دشمن کی کمزور ہوتی پوزیشن کی مزید نشاندہی کرتی ہے۔

دشمن کی نفسیاتی پوزیشن ان کی شکست کو ظاہر کرتی ہے، بلوچ مسلح مزاحمت اور خاص طور پر مجید بریگیڈ جو کہ بی ایل اے کا خودکش ونگ ہے، مجید بریگیڈ کے حملوں نے دشمن کو نفسیاتی طور پر شکست دی، دشمن کو معلوم نہیں کہ اب وہ کیا کریں اور اُسے کس طرح روکیں۔

فدائی سمیعہ قلندرانی نے اپنے آخری پیغام میں کہا ہے کہ “دشمن کو شکست ہوئی ہے” اور یہ دشمن کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تربت میں گذشتہ دنوں ذہنی طور پر غیر مستحکم خاتون کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری طور پر پورے شہر میں سکیورٹی ہائی الرٹ جاری کر دی اور فورًن پورے شہر میں فورسز کو تعینات کی گئی۔

بلوچ مسلح مزاحمت اپنی آخری فتح کی راہ پر گامزن ہے، اور واضح رہے کہ دشمن اپنی نفسیاتی پوزیشن کھو بیٹھا ہے، اور یہ فتح کی نشانی ہے۔ بلوچ مسلح مزاحمت مضبوط ہے، اور یہ دشمن کی شکست کی شکست واضع ہے، جیسے کہ فدائی سمعیہ بلوچ نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ دشمن ٹوٹ چکا ہے وہ اپنا باہرہ کا چہرہ دکھا رہا ہے لیکن اصل میں وہ اندر سے تباہ ہو چکی ہے۔ ہمیں صرف تھوڑا ہمت کرنا ہے اور اُسے مشید مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنا شکست تسلیم کرے۔

دوسری جانب جب بلوچ مسلح گروپ پاکستانی فورسز کے اہلکاروں کو مارنے کا دعویٰ کرتے ہیں یا کہ وہ ثبوت بھی شئر کرتے ہیں کہ اتنا نقصان دشمن کو اٹھانا پڑا مگر پاکستانی فوج اپنے میڈیا کو اسے خبروں کو اجاگر کرنے یا ٹی وی پر بریک کرنے کی اجازت نہیں دیتی، یا خاص طور پر مجید بریگیڈنے دعویٰ کیا تھا کہ آپریشن گنجل میں دشمن کے 195 سے زائدہ اہلکار مارے گئے وہاں بھی پاکستان نے نوشکی اور پنجگور کے دونوں کیمپوں میں صرف 5-10 افراد کی اموات کی فگر دکھائی اور فوج نے پنچگور و نوشکی کیمپ پر میڈیا گروپ کو کوریج کے لیے وہاں جانے سے روک دیا اور دونوں شہروں میں انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا تھا۔ یہ صرف اس کیا جاتا ہے کہ پاکستان نفسیاتی طور پر شکست کھا چکا ہے، اور وہ اب غیر مستحکم ہے۔ اگر وہ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں مارے جانے والوں کی تعداد دکھائے تو اس کی فوج کا مورال گر جائے گا اور اس کولے لوگ خوف میں مبتلا ہونگے۔

ویسے بلوچستان کے مختلف شہروں میں پاکستانی فوج کے اہلکار وہاں سے بھاگتے ہیں اور انہیں گھر سے پریشراز کیا جاتا ہے اور اُن کا زبردستی اُن کو بلوچستان میں فوجی ڈیوٹی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، میری نا دانستہ نقطہ نظر سے میں اس بات کو ایک بار پھر کہنے میں ہچکچاؤگا نہیں کہ پاکستانی فوج، ایجنسز اور اُس کے ساتھی ملک بھی نفسیاتی شکست کھا چکے ہیں اور وہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں اُن کا مسلسل میڈیا پر پروپگنڈا کرنا اور معصوم لوگوں کو بے گناہ اٹھانے اسی مرض کا تسلسل اور واضح ثبوت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں