نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( حصہ سوئم )
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نواب نوروز اور ان کے ساتھی جہد کاروں کو غالباً 19 مئی 1959کو قرآن کا واسطہ دیکر پہاڑوں سے اتارا گیا کچھ کو آگے پیچھے کے تاریخوں پر گرفتار کیا گیا۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ فلانہ شخص نے یکپاسی کو دھوکہ دیا ہے فلانہ نے دو پاسی کا واسطہ دیکر دھوکہ کیا ہے لہذا اس کو ان دونوں کی بددعا ہے اس لئے دھوکہ باز کبھی أباد نہیں ہو سکتا، اس میں بلوچ کے یقین، سادگی اور سچائی و کردار کی بڑائی شامل ہے کہ اسے جھوٹ اور دھوکہ سے کتنا نفرت ہے بلکہ اس سے ان کا یہ یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ جس نے قرآن کو گواہ بنا کر دھوکہ دیا ہے وہ کیسے آباد ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں شہدائے بلوچستان میں سے کچھ نے پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے قرآن پاک کے نسخے اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج ہمیں نہیں اس کلام کے ساتھ کئے گئے عہد کو پھانسی دے رہے ہیں اور اس قرآن پاک کو انھوں نے دھوکہ دیا ہے اور پھر ان بد عہدیوں اور دھوکوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہا، ظاہر ہے بچو اور سانپ نے بھی کبھی اپنی فطرت بدلے ہیں۔
وہ بریگیڈیئر ریاض تھا جو قرآن پاک ہاتھ میں لئے در در مذاکرات اور میڑھ مرکہ کے نام پر مارا مارا پھرتا رہا اور پھر یعنی لوگ بلوچوں کو قبائلی کہہ کر جرگہ چلانے کا شغان مارتے ہیں دوسری طرف ایسے لوگ اپنے آب بیتیاں نجی محفلوں اور ٹی وی پر آکر بھڑک بازی کے ذریعے اپنی جھوٹی کارناموں کی کہانیاں اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے انھوں نے آدھی دنیا فتح کر لی ہو۔
بقول مرحوم سردار عطاءاللہ خان مرحوم کے نواب نوروز سے مذاکرات کے لئے پہلے ان سے رابطہ کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ کچھ دیگر سرداروں کو ملا کر نواب صاحب سے جاکر ملاقات کرے اور انھیں پہاڑوں سے اتار کر مسلح جدوجہد ترک کرنے اور سرنڈر کرنے پر آمادہ کرے۔
سردار صاحب کے مطابق انھوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ وہ خالق ہے اسے جو بھی ہاتھ لگائے گا اس کا چہرہ اور کردار رہتی دنیا تک سیاح رہے گا کیونکہ یہ وہ بدنما داغ ہے جو کبھی بھی صاف نہیں ہوگا بلکہ انھوں نے نواب نوروز کو پیغام بھی بجھوایا کہ وہ ان پر نہ بھروسہ کرے نہ مذاکرات کے نام پر سرنڈر کرے کیونکہ نہ صرف ان کے ساتھ دھوکہ ہوگا بلکہ یہ لوگ تحریک کو وقتی طور پر کچلنے کے لیے آپ لوگوں کو سزائیں بھی دینگے اور تاریخ نے سردار عطاہ اللہ کی بات درست ثابت کی۔
دہائیوں بعد رحمن ملک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سردار صاحب نے کہا تھا کہ اس نائی کو کیا پتہ کہ بلوچوں نے ہتھیار مرمٹنے کے لئے اٹھائے ہیں جن کے پاس ایک مقصد ہے نہ کے سرنڈر کرنے کے لیے اور انھوں نے بنگلہ دیش کے سابقہ سرنڈر کا بھی زکر کیا تھا۔
اب اگر سردار صاحب کے ان مواقع پر دئے گئے جوابوں کو مد نظر رکھ کر کوئی یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ جی میں یا فلانہ ان کا سیاسی استاد تھا اور وہ انھیں قائل کرکے سیاست میں لیکر آیا تھا باقی سردار صاحب نے اپنے سیاست میں آنے کی وجہ جس واقع سے متاثر ہوکر بتائی تھی وہ آج کی تاریخ کا حصہ ہے ، خیر یہ ایک الگ بحث ہے برحال اس طرح دیکھا جائے تو ہر جگہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کو کس طرح مسخ کرکے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ دراصل تحریکوں کی ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ عملی لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں دوسری جانب ہماری جیسی تحریکوں میں لٹریچر کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ فینن جیسے دانشور کی کمی ، دانشور کا باقاعدہ تحریک کا حصہ نہ ہونا تحریک میں دانشور اور لٹریچر کے کمی کو محسوس نہ کرنا یا پھر شاید اہمیت نہ دینا اور شاہد رازداری بھی ہو سکتا ہے ستم ظریفی یہ کہ جب تک تحریک اپنی منطقی انجام کو پہنچے پھر اس کی اہمیت کو محسوس کیا جائے یا پھر اس سے پہلے کہ جب تک محسوس کیا جائے اس وقت تک چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر فائض ہوتے ہیں اور بڑے لوگ گم نام ہوجاتے ہیں، نقصان یہ ہے عوام بونوں کو ان کی ظاہری شکل اور نمائش کی وجہ سے ہی سب کچھ سمجھ کر انھیں قبول کرلیتے ہوئے یہ پوچھنا نہ صرف بھول جاتے ہیں بلکہ سوچتے بھی نہیں کہ دارالامرا میں پچاس سے زیادہ ممبر تھے سب نے الحاق کی مخالفت کی تبھی تو یہ معاملہ میونسپل کمیٹی میں گیا مگر زکر بس ایک تقریر کا کرکے یہ پوچھنا بھول جاتے ہیں کہ اس ایک تقریر کے بعد کیا ہوا؟ جہاں سے اولی انحراف اور وفاق پرستی، پارلیمانی سیاست کا ابتدا ہوا اس سے پہلے بلوچ وفاق ، پارلیمنٹ، پریس ریلیز، شہستی شہرت ، مفاہمت اور مذاکرات جیسی باتوں سے ناواقف تھے، ایسے تمام تضادات آج بھی بلوچ تحریک کو پلید کرتے آرہے ہیں ، اب لفافعی سیاستدان، صحافی، کلرک، بلوچ، غیر بلوچ ہر کوئی ماہر بلوچ بن کر مذاکرات اور امن کے نام پر اپنی ریٹ لگانا چاہتا ہے۔
جاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔