بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم شہزاد منیر کی جبری گمشدگی کے خلاف متاثرہ خاندان نے پریس کلب کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی جانب سے گھر پر چھاپے اور حراست پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ خاندان کے مطابق ریاستی اہلکاروں نے رات گئے بغیر وارنٹ ان کے گھر پر کارروائی کی اور ان کی کزن شہزاد منیر کو زبردستی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لواحقین نے کہا کہ گرفتاری یا حراست کے بارے میں آج تک نہ کوئی قانونی وجہ بتائی گئی ہے اور نہ ہی کسی ادارے نے معلومات فراہم کی ہیں، جو کہ آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ متاثرہ فیملی نے کہا کہ آئینِ پاکستان شہریوں کے حقِ زندگی، آزادی اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
انہوں نے آرٹیکل 9 (حقِ زندگی و آزادی) اور آرٹیکل 10-A (شفاف ٹرائل کا حق) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہزاد منیر کو بغیر مقدمہ، بغیر وارنٹ اور بغیر عدالت پیش کیے اچانک لاپتہ کرنا آئین کی روح کے منافی ہے۔
خاندان نے کہا کہ وہ شدید اذیت اور بے خبری کی حالت میں ہیں اور انہیں شہزاد منیر کی صحت اور سلامتی کے بارے میں سخت پریشانی لاحق ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کا احتجاج مکمل طور پر قانون کے دائرے میں ہے اور ان کا مطالبہ صرف انصاف اور آئینی تقاضوں کی بحالی ہے۔خاندان نے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ شہزاد منیر کو فی الفور بازیاب کرایا جائے، اور اگر ان کے خلاف کوئی الزام موجود ہے تو انہیں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے۔ فیملی کو ان کی موجودگی اور حالت کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور خفیہ حراست کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
لواحقین کا کہنا تھا کہ ان کا موقف سیاسی نہیں بلکہ صرف انسانی اور قانونی بنیادوں پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی ہر شہری کے تحفظ کی ضمانت ہے اور اس کی خلاف ورزی کسی بھی گھر کو متاثر کر سکتی ہے۔
آخر میں، خاندان نے صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو انسانی حقوق، قانون اور انصاف کے پہلوؤں سے اجاگر کریں تاکہ اس طرح کے واقعات کا سدِباب ہو سکے۔

















































