پاکستان فوری طور پر جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ

27

حالیہ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں بلوچستان سے کم عمر لڑکیوں کو لاپتہ کیا گیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان “ایچ آر سی پی” نے غیر قانونی گرفتاریوں حراست اور جبری گمشدگیوں کے تسلسل سے پیش آنے والے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی گرفتاریوں کے سلسلے کو فوری طور پر روک دینا چاہئے۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے طلبہ حبیب وزیر اور عدنان وزیر کی جبری گمشدگی جو 12 نومبر 2025 کو حکومت کی جانب سے بلائے گئے گرینڈ جرگے میں شرکت کے بعد لاپتہ ہوئے، اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح قانونی تقاضوں کو معمول کے مطابق نظرانداز کیا جاتا ہے۔

ایچ آر سی پی کے بیان کے مطابق اسی طرح سابق رکنِ قومی اسمبلی نثار پنہور اور ان کے بیٹے محسن پنہور کی جبری گمشدگی بھی نہایت تشویشناک ہے۔

اطلاعات کے مطابق انھیں 22 دسمبر 2025 کو کراچی میں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد لے گئے، حالانکہ اس سے قبل نثار پنہور کی مختصر رہائی کے بعد یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

ایچ آر سی پی کے مطابق جبری گمشدگیوں کے واقعات بلوچستان میں خواتین اور کم عمر لڑکیوں کی حراست کے ساتھ جڑے ہیں جن میں معذور طالبہ اور کارکن ماہ جبین بلوچ سمیت کم از کم چھ دیگر افراد شامل ہیں، جو نومبر اور دسمبر 2025 میں گرفتاری بعد لاپتہ کردئے گئے۔

تنظیم نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہیں اور خاندانوں اور برادریوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم دوبارہ زور دیتے ہیں کہ ریاست کو شفافیت یقینی بنانی چاہیے، ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف تک غیر مشروط رسائی فراہم کرنی چاہیے۔