پاکستانی فورسز نے فرید احمد کرد اور محمد ندیم کرد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ ہمشیرہ 

16

جبری گمشدگیوں کے باعث اہلِ خانہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں بازیابی میں کردار ادا کریں۔

مستونگ سے جبری گمشدگی کا شکار فرید احمد کرد اور محمد ندیم کرد کے اہلِ خانہ نے کوئٹہ میں قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ سے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے جبری گمشدگیوں کی اذیت ناک صورتحال کو منظرِ عام پر لانا چاہتے ہیں۔ 

اپنے بیان میں فرید احمد کرد کی ہمشیرہ نے کہا کہ بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر مختلف علاقوں سے لوگوں کو ماورائے عدالت جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کے باعث متاثرہ خاندان ناقابلِ بیان اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2 دسمبر 2025 کو صبح ساڑھے دس بجے کولپور بائی پاس ضلع مستونگ میں ان کے بھائی فرید احمد کرد کو اس وقت پاکستانی فورسز نے حراست میں لے لیا جب وہ اپنے ہوٹل میں کام کر رہے تھے۔ 

واقعے کو 24 دن گزر چکے ہیں مگر اہلِ خانہ کو تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں کہاں اور کس الزام میں لے جایا گیا ہے۔

اہلِ خانہ کے مطابق اسی روز مزید 20 سے 25 افراد کو بھی پاکستانی فورسز نے تحویل میں لیا تھا جنہیں بعد ازاں رہا کردیا گیا، تاہم فرید احمد کرد تاحال بازیاب نہیں ہو سکے۔

ہمشیرہ نے کہا کہ انہیں مسلسل تسلیاں دی جارہی ہیں کہ آج نہیں تو کل بازیابی ہو جائے گی، مگر نہ تو ایف آئی آر درج کی جارہی ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ ان کی بات سننے کو تیار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرید احمد کرد ولد محمد رفیق کرد ایک کاروباری شخص ہیں اور ضلع مستونگ، تحصیل دشت بائی پاس پر اپنا ذاتی ہوٹل تعمیر کروا رہے تھے، جبکہ ان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اہلِ خانہ نے بتایا کہ اسی طرح ان کے ایک اور قریبی رشتہ دار محمد ندیم کرد ولد مہیم خان کرد جو کہ ضلع مستونگ کے محکمہ صحت میں پولیو ورکر ہیں، پولیو مہم کے دوران پاکستانی فورسز نے انہیں بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔

آخر میں اہلِ خانہ نے کہا کہ وہ مجبور ہو کر پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی فریاد عوام اور حکام تک پہنچا رہے ہیں تاکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان، آئی جی ایف سی، کور کمانڈر اور دیگر اعلیٰ حکام ان کے بے گناہ بھائی فرید احمد کرد اور قریبی رشتہ دار محمد ندیم کرد کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنائیں۔