پانک، نومبر 2025 کی رپورٹ : 20 ماورائے عدالت قتل، 95 بلوچ جبری لاپتہ

4

بلوچ نیشنل موومنٹ سے منسلک انسانی حقوق کے ادارے پانک نے میڈیا کو نومبر 2025 کی ماہانہ رپورٹ جاری کر دی ہے، جس کے مطابق اس ماہ پاکستانی فوج اور اس سے وابستہ اداروں نے کم از کم 95 بلوچ شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جبکہ 20 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق یہ واقعات ریاستی جبر، من مانی گرفتاریوں، دورانِ حراست تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے ایک منظم تسلسل کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کے باعث بلوچستان میں خوف اور ریاستی اداروں کی مجرمانہ سرگرمیوں پر عدم جوابدہی کا ماحول مزید گہرا ہو گیا ہے۔

پانک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نومبر کے دوران بلوچستان کے ساتھ ساتھ سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے بھی جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ مجموعی طور پر 95 افراد کو بغیر وارنٹ اور عدالتی کارروائی کے گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا، جہاں انھیں اہلِ خانہ، وکلاء اور عدالتی عمل تک رسائی سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا۔ ان میں سے 21 افراد کو شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کے بعد رہا کیا گیا، جنھوں نے دورانِ حراست برقی جھٹکوں، مسلسل مارپیٹ اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا ذکر کیا۔ متعدد واقعات میں ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کے رات گئے چھاپوں کا بھی ذکر سامنے آیا ہے۔

ماورائے عدالت قتل کے واقعات کو رپورٹ میں سب سے زیادہ تشویشناک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نومبر 2025 میں کم از کم 20 شہری مختلف علاقوں میں ہلاک کیے گئے، جن میں مزدور، طالب علم، نوجوان اور ایک کم سن بچی بھی شامل ہے۔ ضلع کیچ ان واقعات سے سب سے زیادہ متاثر رہا، جہاں متعدد لاشیں تشدد اور گولیوں کے نشانات کے ساتھ برآمد ہوئیں۔ یکم نومبر کو تمپ کے علاقے کلاھو کے رہائشی مزدور بہاد بلوچ کو کیچ کے علاقے دھات میں ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے مسلح افراد نے روک کر ان کی موٹر سائیکل اور سامان ضبط کرنے کے بعد قتل کر دیا۔ دو نومبر کو تمپ ہی کے ایک 16 سالہ طالب علم عبدالرحمن کو ایک دکان کے اندر اس کے والد کے سامنے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

بلیدہ میں 29 اکتوبر کو پیش آنے والا ڈرون حملہ بھی رپورٹ کا اہم حصہ ہے، جس میں ایک ہی خاندان کے چار نوجوان، ذاکر، رزاق، صادق اور پیر جان ہلاک ہوئے۔ پانک کی رپورٹ میں پاکستانی فوج کے اس دعوے کو مسترد کیا گیا ہے جس میں ان افراد کو مسلح قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مقامی افراد نے ڈرون حملے میں مارے گئے افراد کی شناخت نہتے شہریوں کے طور پر کی جو جاڑین کے پہاڑی مقام پر پکنک منا رہے تھے ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ چاروں افراد پاکستانی فوج کے علاقے میں کیمپ کو اس بات کی اطلاع دے چکے تھے کہ وہ پکنک منانے کے لیے جا رہے ہیں ، جن کی انھیں اجازت بھی دی گئی تھی۔

ھوشاپ میں 16 سالہ نسیم قادر کو رات کے وقت گھر سے اغوا کیا گیا اور اگلی صبح ان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی، جبکہ میر دوست، جو فروری 2025 سے جبری طور پر لاپتہ تھے، نو ماہ بعد تربت میں تشدد زدہ حالت میں مردہ پائے گئے۔

رپورٹ کے مطابق فاروق نعیم، جنھیں اپریل میں تلار چیک پوسٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، سات ماہ بعد کیچ کے علاقے بانک کنڈگ میں مردہ پائے گئے، جن کے جسم پر شدید تشدد کے نشانات تھے۔ اسی مقام سے ظریف بلوچ کی لاش بھی ملی، جو مارچ 2025 سے جبری لاپتہ تھے اور رپورٹ کے مطابق انہیں بھی زیرِ حراست ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ اٹھارہ نومبر کو گوک، مند میں اسماعیل ابراہیم فرنٹیئر کانسٹیبلری کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے، جبکہ اسی دن سوراب سے اغوا کیے گئے اسماعیل بلوچ کی لاش اگلے روز خضدار کے علاقے باغبانہ سے ملی۔

بلیدہ کے علاقے میناز میں اسکول سے واپسی پر اغوا کیے گئے ایاز بلوچ کی مسخ شدہ لاش ریکو ڈیم کے قریب سے برآمد ہوئی، جس کی شناخت صرف کپڑوں اور جوتوں کی بنیاد پر ممکن ہو سکی۔ اعجاز بلوچ کو فرنٹیئر کور نے کنچتی، دشت سے حراست میں لیا، بعد ازاں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ تشدد کے باعث جانبر نہ ہو سکے۔ دیگر مقتولین میں جلال الدین، محمد عالم اور عمران بلوچ شامل ہیں، جنھیں شادی کی تقریبات کے دوران پاکستانی فوج کے لیے کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کے آلہ کاورں نے اغوا کر کے دو کروڑ روپے تاوان طلب کیا اور رقم ادا کیے جانے کے باوجود ان کی تشدد زدہ لاشیں پھینک دی گئیں۔

ماہ کے آخری دنوں میں ابو بکر اور طاہر بلوچ کی لاشیں بھی ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئیں، جو طویل عرصے سے جبری گمشدگی کا شکار تھے۔ 29 نومبر کو ھوشاپ کے علاقے گروک بازار میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے میں کم سن بچی یاسمین بلوچ شدید زخمی ہوئیں، جنھیں کراچی منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں، جبکہ تین دیگر بچے زخمی ہوئے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ نومبر 2025 کے یہ واقعات بلوچستان میں قانون کی عملداری کے فقدان اور ریاستی طاقت کے بے لگام استعمال کی واضح مثال ہیں۔ پانک کی رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام واقعات کی آزاد اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں، ذمہ دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور بلوچستان میں بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیموں کو نگرانی کی اجازت دی جائے تاکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔