نوکنڈی حملہ: بلوچ آزادی پسندوں کے آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ

111

بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پاکستانی فوج کے مرکزی کیمپ پر حملے کے 30 گھنٹے بعد پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیڈکوارٹر کا کلئرینس آپریشن مکمل کردیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی میں ایک خودکش بمبار سمیت چھ مسلح افراد مارے گئے، جبکہ فورسز کے کئی اہلکار بھی مارے یا زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کے مطابق فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے مرحلہ وار کلیئرنس آپریشن کیا، آپریشن کے دوران علاقے میں نقل و حرکت کو سختی سے محدود رکھا گیا اور اضافی نفری تعینات رہی۔

اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی ہے۔ تنظیم کے بیان کے مطابق کارروائی اُن کے سدو آپریشنل بٹالین (سوب) نے سرانجام دیا۔

نوکنڈی اور اردگرد کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جھڑپ کے دوران وقفے وقفے سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں رات بھر سنی جاتی رہیں، اور حکام نے شہریوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔

نوکنڈی کا واقعہ بلوچستان میں ہونے والے اُس سلسلے کی تازہ کڑی ہے جس میں گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی فورسز، غیر ملکی اہلکاروں اور تنصیبات کو بارہا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

حالیہ عرصے میں بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ رواں سال تربت، بولان، نوشکی، دشت اور نوکنڈی میں خودکش حملہ آوروں کے ذریعے شدید نوعیت کے حملے کیئے گئے ہیں۔ اس سے قبل بھی سی پیک سمیت دیگر منصوبوں، فوجی ہیڈکوارٹرز اور عسکری تنصیبات کو حملوں میں نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

اس سے قبل پنجگور، نوشکی، مچھ اور بیلہ میں پاکستانی فوج کے مرکزی کیمپوں کو نوکنڈی طرز کے حملوں میں نشانہ بنایا گیا جن میں درجنوں خودکش حملہ آوروں نے حصہ لیا جبکہ بیلہ میں “فدائی” حملے کا آغاز ماہل بلوچ عرف زیلان کرد نے بارود سے بھری گاڑی کے دھماکے سے کیا تھا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ کے بلوچ آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے “فدائی” حملہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بلوچ لبریشن آرمی کی مجید برگیڈ “فدائین” حملے کرتی رہی ہے۔ بی ایل ایف نے حملے کے ساتھ ہی اپنے ذیلی ادارے سدو آپریشنل بٹالین (سوب) کا اعلان کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق نوکنڈی کا حملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آزادی پسند تنظیمیں نہ صرف اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں بلکہ بہتر منصوبہ بندی اور طویل مزاحمت کی صلاحیت بھی دکھا رہے ہیں۔