نسرین بلوچ کی جبری گمشدگی کے 27 دن: بیٹی کو پاکستانی فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ اہلخانہ

18

اہلخانہ نے کہا ہے کہ وردی اور سول لباس میں ملبوس مسلح اہلکار نسرین بلوچ کو اٹھا لے گئے، پولیس کا ایف آئی آر درج کرنے سے انکار۔

بلوچستان کے علاقے حب چوکی سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والی 15 سالہ بلوچ خاتون نسرین بلوچ کے اہلخانہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ 22 نومبر 2025 کو رات تقریباً 12 بجے 15 مسلح افراد زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئے۔

اہلخانہ کے مطابق ان افراد میں سے پانچ فرنٹیئر کور (ایف سی) کی وردی میں ملبوس تھے جبکہ باقی افراد سول لباس میں تھے، ان کے ہمراہ ایک عورت بھی موجود تھی۔

جبری طور پر لاپتہ کی گئی نسرین بلوچ کے اہلخانہ نے بتایا کہ ان افراد نے گھر میں شدید توڑ پھوڑ کی، گھریلو سامان بکھیر دیا اور تمام اہلِ خانہ کو ایک کمرے میں بند کر دیا، اس دوران وہ ان کی 15 سالہ بیٹی نسرین بلوچ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے، جس کے بعد سے تاحال اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انہیں امید تھی کہ ان کی بیٹی جلد بازیاب ہوکر گھر واپس آ جائے گی، مگر 27 دن گزرنے کے باوجود نسرین بلوچ کی بازیابی عمل میں نہیں آ سکی۔

متاثرہ خاندان نے واقعے کے فوراً بعد متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تحریری درخواست دی، تاہم پولیس نے تاحال ان کی درخواست وصول یا درج نہیں کی، جس کے باعث لواحقین شدید ذہنی اذیت اور بے بسی کا شکار ہیں۔

اہلخانہ نے کہا کہ تمام قانونی دروازے کھٹکھٹانے کے باوجود وہ مجبوراً اور بے بسی کے عالم میں میڈیا کے ذریعے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔

نسرین بلوچ کے اہلخانہ نے حکام اور ریاستی اداروں سے اپیل کی ہے کہ نسرین بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے، اور اگر اس پر کسی جرم کا الزام ہے تو آئین و قانون کے مطابق عدالت میں پیش کر کے شفاف اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بیٹی کی جبری گمشدگی کے باعث وہ شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہیں اور ریاستی اداروں سے انسانی ہمدردی اور قانون کے مطابق انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔

آخر میں اہلخانہ نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ میڈیا کے ذریعے ان کی آواز متعلقہ حکام تک ضرور پہنچے گی، اور بلوچ قوم سے اپیل کی کہ نسرین بلوچ کی بحفاظت بازیابی کے لیے آواز بلند کی جائے۔