مزاحمت کے کچھ پھول ۔ ثناء ثانی

33

مزاحمت کے کچھ پھول 

تحریر: ثناء ثانی 

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی زخمی زمین، جو بیدار بھی ہے اور اس پر کچھ پھول ایسے کھلتے جن کی خوشبو میں دکھ کے آنسو نہیں ملتے بلکہ فکر کی گرم جوشی چھپی ہوتی ہے۔ یہ پھول کسی قبرستان کی ماتمی نشانی نہیں ہوتے بلکہ ایک ایسے شعوری منظر کا استعارہ بنتے ہیں جہاں غم رک جاتا ہے اور سوچ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر یہی سوچ آگ کی طرح پھیلتی ہے اور انقلاب بن جاتی ہے۔ ان پھولوں کی پنکھڑیوں پر اداس کہانیاں نہیں لکھی ہوتیں، اس کے بجائے سوال کنندہ ہوتے ہیں جو معنی خیز ہوتے ہیں۔ یہ سوال ایسے ہتھیار ہیں جو دل میں اٹھیں تو سلطنتوں کی بنیادیں ہلا دیں۔ یہاں زمین صرف مٹی کا ٹکڑا نہیں ہے، یہاں یادیں بولتی ہیں اور خواب سانس لیتے ہیں۔ ہر کونپل مزاحمت کا اعلان بن کر کھلتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سب سے پہلا پھول اس رات کھلا تھا جب ایک نوجوان نے اپنی ماں کے ماتھے کو چھوما، اس نے کہا کہ وہ مرنے نہیں جا رہا بلکہ زندگی کو معنی دینے کے لئے نکل رہا ہے۔ نہ کہ ہاتھ کانپ رہے تھے اور نہ ہی آنکھوں میں کوئی دکھ تھا بلکہ روشنی تھی۔ وہ شہرت کا پیاسا نہ تھا اور نہ ہی لقب کا خواہش مند، اس کی خاموشی میں صدیوں کا لاوا سلگ رہا تھا۔ جب وہ گرا تو زمین نے اس کا لہو جذب کر لیا۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اسی جگہ ایک پھول کھل اٹھا، وہ پھول عام پودے جیسا نہ تھا۔ اس کی رنگت میں عجیب رمق تھی جیسے مٹی نے خود بولنے کی ہمت پائی ہو۔ لوگوں نے شروع میں اسے اتفاق کہا مگر جب ہر قربانی کے بعد ایسے پھول کھلنے لگے تو سب کو پتا چل گیا کہ یہ اتفاق نہیں ہے۔ یہ انقلاب کی نئی زبان ہے۔

وقت گزرتا رہا اور بلوچستان کی وادیاں ایسے پھولوں سے بھر گئیں۔ کہیں سرخ رنگ کے، کہیں نیلے، کہیں سبز اور کہیں زرد، ہر رنگ میں ایک داستان سمیٹی ہوئی تھی۔ سرخ پھول ان نوجوانوں کا نشان بنے جو بندوق سے پہلے کتاب اٹھا کر میدان میں آئے۔ نیلے پھول ان عورتوں کی علامت تھے جنہوں نے زخموں کو دیکھ کر بندوق اٹھائی۔ انہوں نے اپنی خدمت کو مزاحمت میں بدل دیا۔ سبز پھول بزرگوں کے تھے جن کی آنکھوں میں مزاحمت کی چمک ابھی باقی تھی۔ زرد پھول ان بہادر جوانوں کے تھے جنہوں نے خاموشی سے پہاڑوں میں کاروان کا حصہ بن گئے۔ یوں یہ پھول صرف نباتات نہ رہے بلکہ ایک مکمل سماجی نقشہ بن گئے، جس میں بلوچستان کے ہر طبقے کی آواز شامل ہو گئی۔

یہاں دکھ رکتا نہیں ہے مگر یہ آنسوؤں میں بندھی بھی نہیں رہتا۔ یہ سوچ کی ندیوں کی طرح شعور کی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ جو ماں اپنے بیٹے کو دفن کرتی ہے وہ ماتم میں نہیں ڈوبتی۔ وہ اپنے آنسوؤں کو دعاؤں میں بدل دیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر درد کو لفظوں سے پیوست نہ کیا جائے تو آنے والی نسلیں صرف غم پائیں گے عزم نہیں۔ اس لیے وہ بچوں کو کہانیاں سناتے ہوئے سکھاتی ہے۔ رونا عارضی آسودگی ہے مگر سوچنا دائمی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی ہر درسگاہ میں، ہر کچی بستی میں اور ہر پہاڑی چوٹی پر یہی درس پھیلا رہتا ہے۔ قومیں رونے سے آزاد نہیں ہوتیں بلکہ عمل کی میدان میں اترنے سے آزاد ہوتی ہیں۔

بلوچستان میں جنگ صرف گولیوں کی آواز نہیں ہے۔ یہ ذہنوں میں جاری معرکہ ہے۔ ایک طرف جبر ہے جو تاریخ مٹانا چاہتا ہے۔ زبانیں خاموش کرنا چاہتا ہے اور شناختیں بدلنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف شعور ہے جو ہر دبائی گئی آواز کو نئی گونج دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو لفظوں میں آزادی کی جھلک شامل ہو جاتی ہے۔ یہاں لوک گیت محبت کے نہیں بلکہ مزاحمت کے ترانے ہوتے ہیں۔ یہاں کا سناٹا بولنے لگتا ہے کیونکہ خاموشی خوف کی نہیں بلکہ مراقبے کی نشانی ہے۔

جو مسافر یہاں آتے ہیں وہ ان پھولوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ان کا راز کیا ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ مٹی کی طاقت ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ موسم کی کرم نوازی ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ پھول انسانی ارادے سے جنم لیتے ہیں۔ جب کوئی جان سے بلند نظریہ چنتا ہے تو مٹی اس عہد کو پھول کی شکل میں محفوظ کر لیتی ہے۔ اس تحفظ سے بلوچستان کی زمین کبھی بنجر نہیں ہوئی۔ چاہے معاشی تنگی ہو یا سیاسی بے بسی۔

بلوچستان میں خواتین انقلاب کی داستان میں مرکزی کردار ہیں۔ وہ پس منظر نہیں بلکہ ماں بن کر بیج بوتی ہیں۔ بہن بن کر حوصلہ دیتی ہیں اور معلمہ بن کر نسلوں کو سوال سکھاتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی مہندی میں عہد کی سرخی گھلی ہوتی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ خاموش ہو گئیں تو تاریخ مردوں کی آواز میں دفن ہو جائے گی۔ اس لیے وہ لوریوں میں بھی شعور کی آنچ رکھتی ہیں۔ تاکہ بچے نیند میں بھی سوال میں سوال کرنے کا تصور برقرار رکھیں۔ جب بچے سوال کرنا سیکھ جاتے ہیں تو مائیں شاری بن جاتی ہیں۔ شاری سے زرینہ اور یہ سلسلہ استعماریت کے قلعہ کو زمین بوس کرنے تک جاری رہے گی۔

بلوچ نوجوانوں کے لیے یہ پھول رہبر ہیں۔ جب وہ وادیوں میں بیٹھ کر مستقبل کی بات کرتے ہیں تو یہ پھول بتاتے ہیں کہ شکست کا مطلب ہار مان لینا ہے۔ جب تک سوچ زندہ ہے شکست ممکن نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ لمبا سفر ہے مگر ہر سفر کا پہلا قدم سوچ ہے۔ اس سوچ پر وہ علم کے چراغ جلاتے ہیں۔ ادبی محفلیں سجاتے ہیں اور تاریخ کے مسخ شدہ ورق درست کرنا فریضہ سمجھتے ہیں۔

بلوچستان کی جدوجہد نے ثابت کیا ہے کہ مزاحمت صرف بندوق سے نہیں ہوتی۔ قلم، کتاب، ثقافت اور گفتگو بھی محاذ ہیں۔ ایک نظم ہزار گولیوں سے زیادہ لرزا سکتی ہے اگر اس میں سچ بولنے کی ہمت ہو۔ ایک کہانی ہزار نعروں سے زیادہ اثر کرتا ہے اگر اس میں مظلوم کی سانس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ادب گوریلا سپاہی کی طرح ہے۔ خاموش مگر کاری۔

وہ بوڑھی عورت جو ہر شام پھولوں کو پانی دیتی ہے۔ وہ قبر کی رکھوالی نہیں کر رہی ہوتی بلکہ تاریخ کی حفاظت کر رہی ہوتی ہے۔ وہ ہر پھول دیکھ کر کسی بیٹے کا نام لیتی ہے مگر دراصل تمام بلوچ بچوں کو دعا دیتی ہے۔ اس پانی کے ہر چھینٹے میں عہد ہوتا ہے کہ جب تک پھول کھلتے ہیں قوم کی سوچ مرجھانے نہیں دی جائے گی۔

بلوچستان کی اصل خوبصورتی پہاڑوں یا ساحلوں میں نہیں ہے۔ یہ مردم خیزی میں ہے جو شکستوں کے باوجود اگتی رہتی ہے۔ ہر شکست نئی تدبیر کا جنم بنتی ہے۔ ہر زخم نئی بصیرت کا راستہ کھولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کو مٹانا ممکن نہیں ہے۔ یہ زمین صرف جغرافیہ نہیں بلکہ شعور کا نقشہ ہے۔

آخر میں یہ پھول سب سے بڑا سبق دیتے ہیں کہ دکھ میں ڈوب کر خود کو توڑا جا سکتا ہے۔ مگر فکر میں ڈھل کر تاریخ موڑی جا سکتی ہے۔ آنسو وقتی سکون دیتے ہیں مگر سوال دائمی روشنی ہے۔ خاموشی سہولت ہے مگر بولنا ذمہ داری ہے۔ مر جانا ممکن ہے مگر سوچ کو مرتے دیکھنا ناممکن ہے۔ اس لیے بلوچستان کے یہ پھول کبھی مرجھاتے نہیں ہیں۔ انہیں پانی اشکوں سے نہیں بلکہ شعور کی آگ سے ملتا ہے۔ ان کی جڑیں اس مٹی میں ہیں جس نے صدیوں سے نعرہ تھاما ہے کہ بلوچستان صرف زمین نہیں بلکہ جدوجہد ہے۔ اور جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔

ہر نیا دن بلوچستان کی وادیوں میں طلوع ہوتا ہے۔ یہ کسی اعلان کے ساتھ آتا ہے مگر اعلان نعروں میں نہیں بلکہ عمل میں چھپا ہوتا ہے۔ سورج جب پہاڑوں سے جھانکتا ہے تو پھولوں پر شبنم چمکتی ہے۔ جیسے ستارے رکھ دیے ہوں۔ یہ شبنم آنسو نہیں بلکہ وقت کی مہر ہے۔ جو گواہی دیتی ہے کہ رات کتنی ہی طویل ہو زمین خواب نہیں چھوڑتی۔ لوگ معمولات میں الجھے رہتے ہیں۔ چرواہے ریوڑ لے کر نکلتے ہیں۔ عورتیں پانی بھرنے جاتی ہیں۔ بچے مکتب کی طرف جاتے ہیں۔ مگر ہر قدم کے نیچے وہی فلسفہ سانس لیتا ہے۔ یہ معمولی زندگی نہیں بلکہ بڑی جدوجہد کا حصہ ہے۔

بلوچستان کے بزرگ شفق کے وقت بیٹھ کر ماضی کے قصے سناتے ہیں۔ ان کی آواز میں ندامت نہیں بلکہ وقار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں جبر نے دبانے کی کوشش کی۔ مگر ہر بار مزاحمت نئی صورت میں ابھری۔ کبھی قبائل کی شکل میں۔ کبھی شاعروں کے لفظوں میں۔ کبھی ماں کی دعاؤں میں اور کبھی نوجوانوں کی بے چین سوچ میں۔ یوں یہ جنگ ایک رخ پر نہیں رہی بلکہ رنگ بدلتی رہی۔ مگر اس کی روح ہمیشہ ایک تھی۔ شناخت کا دفاع، وقار کی بقا اور آزادی کی آرزو۔

نوجوان نسل کے لیے یہ پھول تاریخ کی کتابوں سے زیادہ نصاب ہیں۔ جب وہ پنکھڑیوں کو چھوتے ہیں تو سبق مل جاتا ہے۔ علم محض ڈگری نہیں بلکہ شعور کا چراغ ہے جو ظلم کے اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دکھ کو سینے میں جمع کرتے رہے تو ٹوٹ جائیں گے۔ مگر دکھ کو سوال میں بدلیں تو زمانہ بدل سکتا ہے۔ اس یقین سے وہ سیکھنا، لکھنا اور بولنا مزاحمت کا ہتھیار بناتے ہیں۔

بلوچستان کے فنون لطیفہ اس جدوجہد کا عکس ہیں۔ یہاں کی موسیقی میں درد ہے مگر دھن ماتم کے لیے نہیں بلکہ بیداری کے لیے ہے۔ رباب کی ہر تان آزادی کا خواب چھیڑتی ہے۔ لوک گیت کاروان کو راستہ دکھاتے ہیں۔ شاعر وادیوں کے تنہا پن کو نظم میں سمیٹتا ہے تو خاموش پہاڑوں کو آواز دیتا ہے۔ مصور صحرا کے خالی پن کو رنگوں میں ڈھالتا ہے تو ویرانی میں امید کے دروازے دکھاتا ہے۔

وقت کے ساتھ یہ پھول اجتماعی یادداشت بن گئے۔ اب قربانی پر لوگ قبر پر نہیں روتے بلکہ پھول تلاش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کس رنگ میں داستان لکھی جائے گی۔ ہر نئے پھول سے یقین پختہ ہوتا ہے کہ مٹانا آسان نہیں ہے۔ زمین پر نشان مٹ سکتے ہیں مگر شعور سے مہر نہیں ہٹتی۔ ظلم جتنا زور لگاتا ہے مزاحمت اتنی شدت سے جنم لیتی ہے۔

بلوچستان کے تعلیمی حلقوں میں یہ پھول فکری نظریہ بن چکے ہیں۔ کلاس روموں میں بحث ہوتی ہے کہ اصل مزاحمت کیا ہے۔ کیا صرف لڑنا ہے یا شعور پھیلانا ؟ طلبہ کہتے ہیں کہ اگر تاریخ درست لکھیں، زبان بچائیں، ثقافت زندہ رکھیں اور سوال کی آزادی دیں تو یہ انقلاب ہے۔ یوں جنگ میدانوں میں نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جا رہی ہے۔

بلوچ عورتیں اس نظریے کو گھروں سے لے کر میدان تک لے جاتی ہیں۔ وہ بچوں کو طاقتور بننے کی بجائے سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی سکھاتی ہیں۔ ماؤں کی لوریاں خوابوں کے بیج بوتی ہیں۔ نصیحتیں شناخت کی حفاظت کردار سے سکھاتی ہیں۔ ایسی تربیت سے بچے جانتے ہیں کہ ظلم کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ فکر سے دینا ہے۔

یونیورسٹیوں اور ادبی بیٹھکوں میں راتیں جاگ کر یہ موضوع چلتا ہے۔ نوجوان خیالات بانٹتے ہیں، نظمیں سناتے ہیں، افسانے پڑھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مزاحمت کا مقصد ردعمل نہیں بلکہ نیا سماج بنانا ہے۔ جہاں انصاف، برابری اور شناخت محفوظ ہوں۔ یہ سوچ خوف مٹاتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ تاریخ جامد نہیں بلکہ رواں ہے۔

وقت کی گرد چاہے کتنی دبیز ہو، یہ پھول جھانکتے رہتے ہیں۔ سیاح، محقق یا مسافر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس خاموشی میں ہر ایک کا خود سے ایک سوال ہوتا ہے کہ اگر یہ مٹی سہہ کر بھی کھل سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔ یہ سوال زندگی کی سمت بدل دیتا ہے۔ یوں ایک پھول کئی دلوں میں انقلاب کا بیج بو دیتا ہے۔

یوں بلوچستان کے یہ پھول تحریک کی علامت بن چکے ہیں۔ وہ ہر نسل سے کہتے ہیں کہ دکھ میں مت ڈوبو بلکہ فکر کا عَلم اٹھاؤ۔ خاموشی کی بجائے شعور اپناؤ اور مایوسی کی جگہ جدوجہد کو وراثت اپناؤ۔ جب تلک سوچ زندہ ہے، سوال اٹھتے رہیں اور خواب چمکتے رہیں، تب تک یہ پھول کھلتے رہیں گے۔ بلوچستان کی مزاحمت کھلتی رہے گی۔ انقلاب کا گلاب کھلتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔