بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مرکزی بیان میں کہا ہے کہ ماما قدیر بلوچ، بلوچ حقوق کی جدوجہد کے علمبردار تھے۔ وہ بلوچ عوام کے لیے پرامن مزاحمت، استقامت، ثابت قدمی اور حوصلے کی روشن علامت بن کر ابھرے۔ انہوں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف مسلسل سولہ برس تک ایک تاریخ ساز جدوجہد کی اور اپنی آخری سانس تک غیر متزلزل عزم کے ساتھ اس جدوجہد کو جاری رکھا۔
مرکزی ترجمان نے کہاکہ سن 2009 میں ماما قدیر بلوچ کے صاحبزادے جلیل ریکی کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ اسی لمحے سے ماما قدیر نے جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ بعد ازاں جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی مگر ماما قدیر بلوچ نے ٹوٹنے کے بجائے اس المیے کو ایک منظم، باوقار اور تاریخ ساز عوامی جدوجہد میں ڈھال دیا۔
انہوں نے اپنی ذاتی اذیت کو اجتماعی شعور میں تبدیل کیا اور لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی امید بنے۔ماما قدیر بلوچ کا کوئٹہ سے اسلام آباد تک تاریخی پیدل لانگ مارچ نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا کے تاریخ میں ایک اہم عوامی مارچ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ مارچ محض ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ مظلوموں کی خاموش چیخ، ماؤں کی آہوں اور لاپتہ افراد کے حقِ زندگی کا ایک واضح اعلان تھا۔
مزید کہاکہ ماما قدیر بلوچ زندگی کے آخری لمحے تک بلوچ مسنگ پرسنز اور ان کے اہلِ خانہ کی توانا آواز بنے رہے۔ انہوں نے ہر فورم پر، ہر دباؤ اور ہر مشکل کے باوجود، انصاف، سچ اور انسانی وقار کے مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔
ترجمان نے کہاکہ آج اگرچہ ماما قدیر بلوچ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، مگر ان کی جدوجہد، قربانی اور نظریہ بلوچ قوم کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ محض ایک فرد نہیں تھے، بلکہ ایک تحریک تھے۔ ایسی تحریک جو آنے والی نسلوں کو عوامی مزاحمت، حوصلے اور جدوجہد کا راستہ دکھاتی رہے گی۔
آخر میں کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ماما قدیر بلوچ کو ان کی تاریخ ساز جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ جبری گمشدگیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد کو مزید منظم، مضبوط اور مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔
















































