آج بلوچ قوم نے صرف ایک فرد نہیں کھویا بلکہ اپنی تاریخ کا ایک زندہ، متحرک اور مزاحمتی باب بھی کھو دیا ہے – سمی دین بلوچ
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ ماما قدیر بلوچ محض اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلنے والے ایک باپ نہیں تھے، بلکہ وہ بلوچستان کے ہر اُس غم زدہ ماں باپ اور ہر اُس خاندان کی اجتماعی آواز تھے جو جبری گمشدگیوں سمیت مختلف اقسام کے ریاستی جبر کا شکار رہے۔
انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ نے پیرانہ عمری اور کمزور جسم کے باوجود ہمت اور عزم کے ساتھ سولہ برس تک کوئٹہ اور کراچی کے پریس کلبوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے رکھے اور مسلسل دنیا کو یہ باور کراتے رہے کہ بلوچ قوم کس نوعیت کی ناانصافیوں کا سامنا کر رہی ہے۔
سمی دین بلوچ کے مطابق ماما قدیر بلوچ نے ہزاروں میل کا پیدل سفر اس لیے کیا تاکہ دنیا مزید لاعلمی اور خاموشی کا سہارا نہ لے سکے، ان کی جدوجہد ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک اجتماعی آواز تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماما قدیر بلوچ نے ہزاروں بلوچ خاندانوں کے کرب، دکھ اور تکالیف کو اپنی ذات میں سمو کر اسے انصاف اور وقار کے ایک واضح اور مسلسل مطالبے میں ڈھال دیا، ایسا مطالبہ جو انصاف، انسانی وقار اور بنیادی حقوق کی بحالی سے کم کسی بات پر آمادہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماما قدیر بلوچ کا انتقال ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، تاہم ان کی جدوجہد یہاں ختم نہیں ہوتی وہ ہر اُس ماں میں زندہ ہیں جو اپنے لاپتہ بیٹے کی راہ تک رہی ہے، ہر اُس بہن میں جو سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے اور ہر اُس نوجوان میں جو ناانصافی کو مقدر ماننے سے انکار کرتا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ بلوچ قوم کے لیے ماما قدیر بلوچ ہمیشہ ایک استعارہ اور مزاحمت کی علامت رہیں گے اور اس بات کی یاد دہانی کہ تاریک ترین حالات میں بھی ایک پیر مرد نے کٹھن حالات اور بے شمار رکاوٹوں کے باوجود صبر، ہمت اور مستقل مزاجی کے ساتھ جدوجہد اور مزاحمت کو زندہ رکھا۔















































