ماما قدیر: ایک عہد کی ابتدا
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب نئی صدی کا آغاز ہوا اور دنیا اس کے جشن کی تیاری کر رہی تھی، انہی دنوں بلوچستان ایک نئے زاویے سے اپنی جبری تقدیر کا سامنا کر رہا تھا۔
اکیسویں صدی بلوچ جدوجہد کی ازسرِنو مزاحمت کا ایسا دور لے کر آئی جس کی سمت درست تھی مگر راستہ کٹھن اور حالات نہایت مشکل تھے۔ اس حقیقت کا ادراک شاید ہر کسی کو نہیں تھا۔ صدی کے ابتدائی برسوں میں جدید بلوچ مزاحمت اپنی قوت اور وسعت میں اضافہ کر رہی تھی مگر دوسری جانب جبر، سختیاں اور اذیت ناک مناظر بھی بلوچ عوام کے منتظر تھے۔
چیئرمین غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کی جبری گمشدگی کے بعد جب ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں تو ایک نئے مگر نہایت پرتشدد دور کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد بلوچستان کی سرزمین مسلسل اپنے جبری گمشدہ افراد کی لاشیں اگلتی رہی۔ ایسے ہی ایک دور میں ایک پیر مرد نے پرامن مزاحمت کا علم بلند رکھا۔ وہ تھے ماما قدیر جو آج کی دنیا کی تاریخ کے طویل ترین لانگ مارچ اور بھوک ہڑتالی کیمپ کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔
2009 میں اپنے نوجوان بیٹے کی جبری گمشدگی کے بعد ماما قدیر چند ساتھیوں کے ہمراہ ایک منظم جدوجہد کے ساتھ میدان میں آئے۔ ایک سابق بینکر کا جبری گمشدگی کے خلاف جدید بلوچ مزاحمت کی علامت بن جانا محض ایک شخص کی کہانی نہیں تھی بلکہ ایک پورے عہد کی داستان تھی۔ ماما قدیر نے اپنے دوستوں کے ساتھ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کی بنیاد رکھی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا کر بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔ یہ ایک ایسی جدوجہد تھی جو آگے چل کر دنیا کی طویل ترین اور تاریخ ساز بھوک ہڑتال میں تبدیل ہوئی۔
24 نومبر 2011 کو بالآخر ماما قدیر کے جواں سال بیٹے جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی۔ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے بیٹھے ماما قدیر کے بیٹے کی لاش یہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دور تمپ، ضلع کیچ سے ملی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب تربت کے سرکاری ہسپتال میں جلیل ریکی کی لاش کی شناخت کی گئی تو میں نے ماما قدیر کو فون کر کے اطلاع دی۔ ماما نے ابتداً اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ یہ جلیل ریکی کی لاش نہیں ہو سکتی، شاید ہمیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ مگر بالآخر انہیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا پڑی کہ تمپ سے ملنے والی مسخ شدہ لاش انہی کے بیٹے جلیل ریکی کی تھی۔
بعد ازاں جلیل ریکی کی میت اُس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر تربت کی مدد سے سوراب بھیجی گئی۔ شدید صدمے اور جذباتی کیفیت میں ماما قدیر نے اگلے دن اسی اسسٹنٹ کمشنر پر مختلف الزامات عائد کیے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں یہ پیر مرد صبر، تحمل اور استقامت کے ساتھ ساتھ کئی مواقع پر شدید جذباتی کیفیت کا بھی شکار رہا۔
ماما قدیر ایک فرد تھے اور اپنی بشری کمزوریوں کے باوجود ایک کامیاب اور مستقل مزاج جدوجہد کار ثابت ہوئے۔ انہوں نے چھ ہزار سے زائد دنوں تک بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر نہ صرف اپنی صحت قربان کی بلکہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ اس کے باوجود انہیں مناسب علاج تک میسر نہ آ سکا حالانکہ ان پر بیرونی فنڈنگ جیسے بے بنیاد الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان کے پاس اپنے علاج کے لیے بھی مناسب وسائل موجود نہیں تھے۔
مسلسل تکالیف، مشکلات اور مصائب کے باوجود ماما قدیر نے اس تاریخ ساز جدوجہد کو برقرار رکھا اور ایک لمحے کے لیے بھی مایوسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ کوئٹہ پریس کلب میں قائم ان کے کیمپ پر حملے کیے گئے۔ کیمپ کو نذرِ آتش کیا گیا، گاڑیوں سے کچلنے کی کوشش کی گئی، انہیں دھمکیاں دی گئیں اور مسلسل ہراساں کیا گیا مگر اس سب کے باوجود وہ اپنی سرزمین کے جبری گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے ثابت قدمی سے کھڑے رہے۔
ماما جانتے تھے کہ اپنی جدوجہد کے ذریعے وہ نہ فسطائیت کو شکست دے سکتے ہیں نہ ہی اپنی سرزمین پر اگلتی لاشوں کی فصل کو فوراً روک سکتے ہیں۔ لیکن انہیں اس بات کا کامل یقین تھا کہ وہ ہزاروں ماؤں کے لیے ایک توانا امید ہیں اور اسی امید کو زندہ رکھنا ہی ماما کی سب سے بڑی کامیابی اور نمایاں خصوصیت تھی۔
ماما قدیر اپنی جدوجہد کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ بلوچ اپنی ہی سرزمین پر جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں شدید اذیت اور کرب کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2009 سے اپنی منفرد اور مسلسل جدوجہد میں مصروف اس پیرانہ سال مزاحمتی کار نے صرف اپنی سنی، اپنا کہا مانا اور اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔
ممکن ہے کہ طویل سولہ سالہ جدوجہد کے دوران ماما نے کبھی کبھار یہ سوچا ہو کہ جبری گمشدگیاں ان کی کوششوں سے نہ کم ہوں گی نہ ہی بند مگر اس کے باوجود انہوں نے خود کو ایک ایسی امید کا منبع بنائے رکھا جس کے دامن میں لاکھوں ماؤں کی آرزوئیں سمٹی ہوئی تھیں۔
لاپتہ افراد کے بازیابی کی علم بردار یہ پیر مرد بالآخر زندگی اور موت کے درمیان ایک سمجھوتہ کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گیا مگر اپنی دھن میں پکا اور ثابت قدم رہا۔ ہزاروں امیدوں کا یہ مضبوط استعارہ ہفتہ 20 دسمبر کو طویل علالت کے بعد امر ہو گیا۔
آج ماما ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ماما کا مشن اور ماما کا کیمپ قائم رہے گا؟ اس کا جواب خود وقت دے گا مگر ایک حقیقت اٹل ہے کہ جبری گمشدگیاں آج بھی بلوچستان کے سب سے سنگین اور اہم مسائل میں سے ایک ہیں۔ ماما کے مشن کو راستہ بنا کر جو لوگ بھی اس تاریخ ساز کیمپ کو قائم رکھیں گے جس کے قائم ہونے میں جبر اور صبر دونوں طاقتوں کا خوف اور امید شامل ہے وہی دراصل ماما قدیر بلوچ کی لگیسی اور ماما کے عہد کے وارث ہوں گے۔ ایک ایسا تابناک اور روشن عہد جس کی بنیاد، جس کا آغاز اور اس کا انجام خود ماما ہوں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































