عمانی خفیہ ایجنسیوں نے بلوچ وکیل کو اغواء کرکے پاکستان کے حوالے کردیا

107

عمان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حراست میں لیے گئے ایک بلوچ وکیل کو پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے، تاہم اس وقت ان کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

اطلاعات کے مطابق 45 سالہ ایڈووکیٹ محمد حسن ولد دو شمبے، جو تربت کے علاقے دشتی بازار کے رہائشی ہیں، کو تقریباً چار ماہ قبل مسقط میں حراست میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں 11 دسمبر کو پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔

ان کے ایک دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا، کہ محمد حسن کو یکم ستمبر کی شام تقریباً 8 بجے مسقط میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ کارروائی سادہ لباس اہلکاروں، جنہیں مقامی طور پر کندورہ پوش کہا جاتا ہے، اور رائل عمان پولیس کے اہلکاروں نے مشترکہ طور پر انجام دی ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ ڈی پورٹیشن کے بعد سے محمد حسن کے مقام کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔

اس کے دوست کے مطابق انہیں محمد حسن کی ڈی پورٹیشن کا علم اس وقت ہوا جب بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی)، جو بلوچ حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم ہے، نے ان کی گرفتاری اور ڈی پورٹیشن سے متعلق بیان جاری کیا۔

ذرائع کے مطابق محمد حسن ایک دہائی سے زائد عرصے سے خلیجی ممالک میں مقیم تھے۔ متحدہ عرب امارات سے عمان منتقل ہونے سے قبل وہ یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے دستاویزات تیار کر رہے تھے۔

محمد حسن کے اہلِ خانہ کے ایک رکن نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ ان کا بلوچ تحریک سے وابستہ کسی سیاسی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ برسوں پہلے روزگار کے لیے بلوچستان چھوڑ کر خلیجی ممالک چلے گئے تھے، جہاں وہ بطور مزدور کام کرتے رہے۔

اہلِ خانہ کے مطابق ان کا کسی حساس مقدمے سے واحد تعلق یہ تھا کہ وہ غلام محمد بلوچ کے اغواء کے واقعے کے عینی شاہد تھے، جو بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے بانی تھے۔

غلام محمد بلوچ، لالا منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کو 3 اپریل 2009 کو تربت میں ایک وکیل کے چیمبر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ چند دن بعد ان تینوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جس کے بعد یہ مقدمہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد حسن اور ایک اور وکیل کچکول بلوچ، جو اس وقت ناروے میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں، اس واقعے کے گواہ تھے، اور ممکنہ طور پر یہی امر محمد حسن کی گرفتاری اور ڈی پورٹیشن کا سبب بنا۔

عمان کی حکومت اور پاکستانی حکام کی جانب سے محمد حسن کی گرفتاری یا ڈی پورٹیشن کی باضابطہ تصدیق تاحال نہیں کی گئی۔

یہ عمان سے کسی بلوچ فرد کی گرفتاری اور پاکستان ڈی پورٹیشن کا پہلا رپورٹ شدہ واقعہ ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات اور بحرین سے بلوچ کارکنوں کی گرفتاری اور پاکستان منتقلی کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

یہ پیش رفت بلوچستان حکومت کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز میں اعلان کردہ وسیع تر سیکیورٹی اقدامات کے پس منظر میں سامنے آئی ہے۔ 3 دسمبر کو صوبائی حکومت نے بتایا تھا کہ تقریباً 300 مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا اور بیرونِ ملک سرگرم کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے مدد لی جائے گی۔

وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے بیان کے مطابق یہ فیصلہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا، جہاں حکام نے مبینہ طور پر بیرونِ ملک موجود کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں اور پاکستان کے اندر ان کے نیٹ ورکس کے درمیان روابط کے شواہد پیش کیے۔

خلیجی ممالک دہائیوں سے ہزاروں بلوچ تارکینِ وطن کا مسکن رہے ہیں، جہاں وہ مختلف شعبوں خصوصاً محنت کش اور سروس سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔