بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ قومی تاریخ کے صفحوں میں لکھے گئے وہ ابواب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بلوچ قوم نے ہر دور میں قابضین و حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرکے اپنی سرزمین کی دفاع کیا ہے۔ اس خطے میں انگریز سامراج سے لیکر پاکستان جیسے قابض کے خلاف بلوچ قوم نے روزِ اول سے مزاحمت کرکے اپنی قومی وقار و آزادی کو برقرار رکھنے میں قومی ذمہ داری نبھائی ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے 1967 میں کوہِ سلیمان کے بہادر عوام نے جابر ریاست کے خلاف مزاحمت کرکے نئی تاریخ رقم کی۔
ترجمان نے کہاکہ بلوچستان کی سرزمین کو انگریز سامراج نے اپنی سامراجی پالیسیوں و جھوٹی معاہدوں کے زریعے پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم کیا۔ بلوچستان کی آزادی کے بعد قابض پاکستان نے بندوق و فریب کے زریعے اس پر قبضہ کیا تو اسی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان نے بلوچستان کے کئی علاقوں کو جھوٹی معاہدوں و طاقت کے بل بوتے تقسیم کرکے ان کو انتظامی حوالے سے دیگر مصنوعی صوبوں میں شامل کیا۔ ان مصنوعی سرحدوں کو بلوچ قوم نے روزِ اول سے ماننے سے انکار کیا کیونکہ یہاں نہ صرف ہماری قوم کے لوط آباد ہیں بلکہ یہاں سے ہماری قومی یاداشتیں جُڑی ہوئی ہیں اور یہ خطے تاریخی، ثقافتی و جیوگرافی کے لحاظ سے بلوچ سرزمین کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ 1967 میں جب قابض پاکستانی فوج نے ڈیرہ جات کے قبائلی علاقوں پر جارحیت شروع کی تو کوہ سلیمان کے غیور و باوقار عوام نے سر جھکانے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ ڈیرہ جات میں بسنے والے بلوچ قوم نے اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کرکے نہ صرف قبضہ گیر کو ماننے سے انکار کیا بلکہ اپنے سرزمین کا دفاع کیا اور لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی۔
ترجمان نے کہاکہ قابض پاکستانی ریاست کے خلاف بلوچ سرزمین کے دفاع میں جامِ شہادت نوش کرنے والے کوہ سلیمان کے ان بلوچ فرزندوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہتریں طریقہ یہی ہے کہ ان کے مقصد کو اپنا کر بلوچ سرزمین سے قابض ریاست کو نکالنے میں عملی جدوجہد اور مزاحمت کا راستہ اپنائیں کیونکہ یہ وہ عظیم کردار ہیں جنہوں نے بلوچ روایات کی پاسداری و محراب خان کا فلسفہ اپنا کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ڈیرہ جات کے عوام کو اس فلسفہ کو سمجھ کر آج اس دور میں قومی غلامی کے خلاف جدوجہد کرنا وقت و قوم کی اہم ضرورت ہے۔















































