شفیق زہری کی جبری گمشدگی، تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں کی مذمت، فوری بازیابی کا مطالبہ

0

بلوچستان میں جبری گمشدگی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں حب چوکی سے تعلق رکھنے والے کالج پروفیسر شفیق زہری کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

واقعے پر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کو بلوچستان میں سیاسی کارکنان کے خلاف جاری اجتماعی سزا کا تسلسل قرار دیا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کے مطابق بلوچ کارکن ماہ زیب بلوچ کے والد 45 سالہ شفیق زہری ولد عبدالرسول زہری، ڈگری کالج حب میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں، جنہیں پاکستانی فورسز نے بدھ کے روز حراست میں لے کر لاپتہ کیا، جبکہ ان کے اہل خانہ کو تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

پانک نے کہا ہے کہ بلوچ کارکن ماہ زیب گذشتہ سات سالوں سے اپنے چچا راشد حسین کی جبری گمشدگی کے خلاف انصاف کی جدوجہد کر رہی ہیں، راشد حسین کو متحدہ عرب امارات میں گرفتار کر کے پاکستان منتقل کیا گیا تھا، جہاں بعد ازاں انہیں جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔

ادھر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بھی تصدیق کی ہے کہ شفیق زہری کو حب چوکی کے عدالت روڈ سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، جس پر تنظیم نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری اور باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماؤں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ ماہ زیب بلوچ کی سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں ان کے والد کی جبری گمشدگی اجتماعی سزا اور انتقامی کارروائی کی نشاندہی کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں، جو خوف کو بڑھاتی اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہیں۔

سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ شفیق زہری کو فوری طور پر منظرعام پر لایا جائے اور سیاسی کارکنوں کے اہل خانہ کو دباؤ اور انتقام کا نشانہ بنانا بند کیا جائے۔