سندھ حکومت نے خودکش بم حملے کی مبینہ منصوبہ بندی میں ملوث ایک لڑکی کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔
سندھ پولیس نے ایک کمسن لڑکی کو حراست میں لے کر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچ لبریشن آرمی کے ارکان سے رابطے میں تھی اور مبینہ طور پر خودکش حملے کی تیاری کر رہی تھی۔
گزشتہ روز کراچی میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سندھ پولیس اور صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن نے ایک بلوچ خاتون کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔
سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن نے بتایا کہ حراست میں لی گئی اس نوجوان لڑکی کے خلاف کوئی باقاعدہ مجرمانہ فردِ جرم عائد نہیں کی جائے گی، بلکہ اسے ’ریاستی حفاظت‘ میں رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ خاتون پر جرم عائد نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی مشتبہ ملزمہ کے بجائے علیحدگی پسندوں کی کوششوں سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ کے مطابق اس لڑکی کو پولیس کی جانب سے معمول کی چیکنگ کے دوران اس وقت حراست میں لیا گیا، جب وہ بلوچستان سے کراچی کی طرف سفر کر رہی تھی، مبینہ طور پر اپنے ایک سہولت کار سے ملاقات کے لیے، جو اس کی مدد کرنے والا تھا۔
سندھ حکومت نے اس موقع پر مبینہ خودکش حملہ آور اور اس کی والدہ کو بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا، تاہم دونوں کے چہرے ڈھانپے گئے تھے اور ان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے گئے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی سندھ حکومت نے کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی قافلے پر حملے میں ملوث ایک خاتون سہولت کار کو حب سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم اس حوالے سے میڈیا کو کوئی خاطر خواہ معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
اس سے قبل کوئٹہ میں بھی پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایک خاتون کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان پر خودکش بمبار بننے کا الزام عائد کیا تھا، اسی طرح ماہل بلوچ نامی خاتون کو بھی انہی الزامات کے تحت سی ٹی ڈی کی جانب سے حراست میں لے کر میڈیا ٹرائل کیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں عدالت نے انہیں رہا کر دیا تھا۔
حالیہ دنوں میں بلوچستان کے مختلف علاقوں، بالخصوص حب چوکی سے، خواتین کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور دیگر پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کی جانب سے حراست میں لینے اور بعد ازاں لاپتہ کرنے کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
بلوچستان سے خواتین کی جبری گمشدگیوں کی حالیہ لہر کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گزشتہ دنوں پانچ روزہ احتجاجی مہم چلائی گئی، جبکہ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی خواتین کی جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے


















































