سرکار، سردار و خاکی دستار – ہربل بلوچ

16

سرکار، سردار و خاکی دستار

تحریر: ہربل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا جہاں میں بے شمار اقوام صدیوں سے آباد ہیں۔ اس وسیع عالم میں تمام قوموں کے درمیان مماثلت کے کئی عوامل موجود ہیں، مگر اس بھیڑ میں ایک قوم کو دوسری سے ممتاز اور منفرد بنانے کا سہرا اُس قوم کی روایت، رسم و رواج اور ثقافت کو جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ثقافت سے مراد محض چادر کا ٹکڑا، جسم ڈھانپنے والا لباس، کندھے پر رکھی پوشاک، سفید دستار اور بڑی گھیری والی شلوار قطعاً نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی ثقافت سے اصل میں کیا مراد ہے؟

اگر لفظ ثقافت کی تہہ میں اُتر کر گہرائی سے جانچ کی جائے تو کئی راز آشکار ہوتے ہیں۔ یہ صرف لباس، پوشاک یا دستار نہیں بلکہ ایک وسیع طرزِ فکر ہے جو کسی قوم کے امتیاز کی بنیاد بنتا ہے۔ اس سانچے میں قوم کی ڈگار سے بے انتہا محبت، “سیال” کے ساتھ وطن کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی دینے کی روایت، راج کی بقا کے لیے مزاحمت کا حوصلہ، آزاد رہنے کی آرزو، ننگ و ناموس کی خاطر تلوار نیام سے نکالنے کے لیے “ہقل”، شہدا کی قربانی کے فلسفے پر عمل اور جان نچھاور کرنے کی عظیم روایت شامل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، ان روایات اور قول و ڈگار پر قبضے یا مسخ کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف ڈٹ جانا بھی اسی ثقافت کا حصہ ہے۔

اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے اور حقیقی رخ کی جانب۔ جب آپ کی ڈگار پر قبضہ کرنے کی کوشش ہو، آپ کی روایات پر حملے ہوں، اور مزاحمت کی عظیم فلسفہ کو کمزور کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں، تو ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ “سیال” آپ کی دستار سر پر رکھ کر، کندھے پر پوشاک سجا کر، آپ ہی میں گھلنے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟ دنیا کی طاقتوں میں سے ایک ہونے کے باوجود اُسے اپنے خاکی جسم پر سفید پوشاک رکھنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ تلاشِ جواب سے یہ راز کھلتا ہے کہ جب قابض محکوم کی لباس اوڑھ لیتا ہے تو وہ دراصل اُس ثقافت کے اندر موجود مزاحمت کے احساسات کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ روایات جو اس کے قبضے کے لیے خطرہ بنتی ہیں، انہیں نکال کر صرف دستار کو علامتی طور پر پہنا کر اپنی بالادستی کو طول دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

اب اپنی بات کو مزید آسان بنانے کے لیے صرف یہ سوال ذہن میں اُتار لیجیے کہ جب سردار، سرکار اور خاکی دستار کی تصویر آپ کی موبائل اسکرین پر نمودار ہو تو سوچیے۔ وہ لوگ جو چند سال پہلے بلوچی لباس سے نفرت کی انتہا پر تھے، سڑکوں پر سرعام بلوچ نوجوانوں کی تذلیل کرتے تھے، بڑی گھیری شلوار کو کینچی سے کاٹ دینا معمول تھا، کندھے پر رکھی پوشاک کی بنیاد پر سڑک پر کان پکڑنے کی سزا دی جاتی تھی، اور بلوچی “چوٹ” پہننے پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ تو اب اچانک یہ تبدیلی کیسے آگئی؟ قسمت کی دیوی تو اتنی جلدی مہربان نہیں ہوتی۔ وہی بلوچ، وہی قابض۔ مگر یہ اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیسے رہنما بنی؟ سوچیے، ذہن کو تھوڑا جھنجوڑئیے، تو ایک نہیں بلکہ کئی راز آپ پر عیاں ہونگے جن میں راج کی جیت اور دشمن کی شکست صاف دکھائی دے گی۔

لہٰذا، آؤ عہد کریں کہ اپنی روایات کو پھر سے زندہ رکھیں گے۔ مادرِ وطن سے محبت، دشمن کے خلاف بے رحم مزاحمت اور شہدا کی قربانی کے فلسفے پر عمل کا عہد کریں گے۔ حقیقی بلوچ روایات، رسم و رواج اور ثقافت کو زندہ رکھیں گے، کیونکہ جب تک ہماری پوشاک و دستار دشمن کندھے اور سروں پر سہتی رہے گی، تب تک ہم دستار کی حرمت کے لیے جان نچھاور کریں گے اور سہہ رنگی پوشاک میں ڈگار کی آغوش میں سپرد ہوتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔