دسمبر و جرنل اسلم
تحریر: زمُل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“آپ نے ہمیشہ خود کو گمنام کیوں رکھا؟ آپ سامنے کیوں نہیں آئے؟ تحریکیں تو چہروں سے پہچانی جاتی ہیں۔”
وہ ذرا سا مسکرائے، اور کہا:
“میری بچی! تحریکیں چہرے نہیں مانگتیں۔ جب رہنما علامت بن جائے تو تحریک کمزور ہو جاتی ہے۔ رہنما کے مرنے سے تحریک بھی مر جاتی ہے۔ میں نے چاہا تھا کہ میں اوجھل ہو جاؤں، مگر مقصد باقی رہے۔ میری عدم موجودگی تحریک کی زندگی ہو، موت نہیں۔”
میں نے کہا،
“لیکن ہمیں تو آپ کی رہنمائی کی ضرورت تھی… آپ کی موجودگی نے ہی سب کو جوڑے رکھا تھا۔”
اُنہوں نے سخت مگر سمجھانے والے لہجے میں جواب دیا:
“اگر میری غیر موجودگی نے تمہیں روک دیا تو تم تحریک کا حصہ نہیں ہو، صرف میری شخصیت کی مداح ہو۔ شخصیات نہیں لڑتیں، قومیں لڑتی ہیں۔ یا تو صفِ اوّل میں آؤ، یا پھر مان لو کہ تم میری جدوجہد سے نہیں، میری موجودگی کے خیال سے متاثر ہو میری بچی۔”
میں خاموش رہی۔ کچھ دیر بعد میں نے آہستہ سے کہا،
“ہم نے آپ کے بعد بہت کچھ کھویا ہے…” رُکے نہیں، مگر اس بار اُن کی آواز میں عجیب ٹھہراؤ تھا:
“قربانی تب معنی رکھتی ہے جب اگلی نسل اُس پر عمارت کھڑی کرے۔ میں نے سب کچھ اس لیے جلایا کہ روشنی تم تک پہنچے، برسوں بعد بھی۔ اگر تم چراغ تھام لو تو میں زندہ ہوں۔ اگر نہ تھاما تو میری زندگی ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں۔” وہ مجھ سے تھوڑا آگے چل رہے تھے۔ اُن کے قدم تیز ہونے کے باعث مجھے اُن کے قدموں سے ہم قدم رہنے کے لیے تقریباً بھاگنا پڑ رہا تھا۔
اُن کی اپنے مخصوص انداز میں دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے، اور بائیں کندھے پر وہی رومال جس کا انداز اُن کی پہچان تھا۔
چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا، لیکن اُن کے چلنے کا ڈھنگ، گردن کا زاویہ، آواز، ہاتھوں سے بات سمجھانے کا طریقہ۔ سب کچھ چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ یہ وہی ہیں۔
نصف شب تھی۔
چاند کہیں بادلوں کے پیچھے تھا اور ایک نیم اندھیر روشنی سی پھیلی ہوئی تھی…
جیسے تاریکی کو چیر کر صرف اُن کی آواز راستہ بنا رہی ہو۔
میں نے کہا،
“لیکن میں؟ میں تو آپ کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتی۔ مجھے آپ کا ہم صف بننا ہے اُستاد”
یہ کہہ کر میری آواز رند سی گئی، آنسووں کا گولہ گلے میں اٹھک گیا۔
آپ کو ہونا چاہیے تھا… میرے ساتھ… میری رہنمائی کے لیے۔
آپ نے ہمیں چھوڑ کیوں دیا؟”
وہ رُکے نہیں، بس ہلکے سے بولے:
“میرے بعد بھی بہت سے لوگ ہیں جو میرے ہمصف بنے۔”
“کیسے؟”
“میرے راستے پر چل کر۔
جتنے لوگ سچ کے راستے پر چلتے ہیں، وہ مجھ سے یوں جُڑ جاتے ہیں۔”
اُنہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
“اِس طرح قریب ہیں مجھ سے وہ۔
جیسے میں اُن کے اندر زندہ ہوں۔”
پھر اُنہوں نے اپنا ہاتھ شمال کی طرف اُٹھایا،
“اُدھر دیکھو۔”
میں نے اندھیرے کے باعث آنکھیں ملیں۔
دور، دھند میں، مجھے چہرے نظر آنے لگے
وہی چہرے جنہیں میں اپنی ڈائری میں لکھتی ہوں،
جن کے بارے میں میں گھنٹوں تحقیق کرتی ہوں،
جنہیں میں کاغذ پر محفوظ رکھتی ہوں تاکہ کوئی انہیں بھول نہ جائے۔ وہ سب شہدا وہاں کھڑے تھے۔
اُن کے سامنے سیاہ نقاب پوش بُلند قد میں وہی خوبصورت آنکھوں والا ٹرینر
جیسے وہ سب جانتے ہوں کہ میں کون ہوں… اور میں کیوں آئی ہوں۔
تب اچانک مجھے لگا جیسے زمین میرے قدموں کے نیچے سے سرک رہی ہو۔
میرا جسم ہلکا ہونے لگا۔
جیسے ہوا مجھے پیچھے کھینچ رہی ہو۔
میں گھبرا گئی۔
اور وہ لمحہ
میں نے اپنا زور لگا کر اُن کا نام چلّایا۔
“اُستاد! اُستاد! پلیز… میں نہیں جانا چاہتی… پلیز مجھے مت جانے دیں!”
میری آواز ٹوٹ رہی تھی۔
میری آنکھوں سے آنسوؤں کے باعث کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اور اُنہوں نے
ہاں، اُنہوں نے بھی میرا نام لیا۔
واضح، بھاری، ایسا جیسے وہ کسی اندھیرے سے مجھے واپس کھینچنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
“… گھبراؤ نہیں…”
اُن کی آواز قریب بھی تھی… اور بہت دور بھی۔ میں چیختی رہی،
“میں نہیں جانا چاہتی! اُستاد اسلم! پلیز! آپ مجھے کیوں چھوڑ رہے ہیں؟”
میں ہوا میں تحلیل ہو رہی تھی۔
میری انگلیاں اُن کی طرف بڑھتی تھیں، مگر وہ فاصلے بڑھتے جا رہے تھے۔
اور اُن کی آخری آواز جو میں نے سنی
میرا نام۔
صرف میرا نام۔
اور اُس کے بعد… سب خاموشی۔
ایک جھٹکے سے میری آنکھیں کُھلیں۔ کمرہ گھپ اندھیرا تھا۔ میں نے اندھیرے میں اپنا فون ٹٹولا تو اسکرین کی روشنی پھیلی، اور والپیپر پر اُنہی کی تصویر سامنے تھی… وہی آنکھیں، وہی رومال، جو کئی وقت سے میرے ساتھ ہے۔ مگر اس رات میرے گال آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے، اور مجھے یاد بھی نہ تھا کہ میں کب روئی۔
عجیب ہے… میں اُنہیں خوابوں میں کبھی نہیں دیکھتی، حالانکہ دعا بھی کرتی ہوں اور تمنّا بھی۔ کیونکہ وہ واحد ذریعہ ہے کہ میں اُن سے ملوں۔ وہ رات زندگی میں دوسری بار تھی، اور وہ بھی یکم دسمبر۔۔۔ وہی مہینہ جو خدا نے غم، یاد اور تشنگی کے ساتھ ہمارے نصیب لکھ دیا۔ اکثر سوچتی ہوں کہ کتنی بدقسمت ہوں کہ میں نے اُنہیں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا… اور کتنی خوش نصیب بھی کہ میں اُن کی راہ پر چل رہی ہوں جو انہوں نے میرے آنے سے بہت پہلے تراشی تھی۔ اُستاد نے، فکر اور کردار کی بنیاد رکھی۔ اُستاد قبلہ اسلم کی زندگی کو محض ایک کہانی نہیں کہا جا سکتا وہ تو ایک خاکہ ہے، ایک فکری و اخلاقی نقشہ، ایک سیاسی بصیرت جو ہر زمانے سے بڑی ہے۔
اُنہوں نے ہمیں جرات کا لغت دیا، انصاف کی بناوٹ دی، اور سیدھے کھڑے رہنے کا وہ طریقہ جو ایک جھکی ہوئی دنیا میں سب سے مشکل ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کوئی قصہ نہیں کہ دہرایا جائے وہ تو ایک منشور ہے، جسے عمل میں لانا ہوتا ہے۔ ایک رہنما اور اُس کے سپاہیوں کا خوبصورت رشتہ کبھی جسمانی موجودگی کا محتاج نہیں رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سقراط زہر کا پیالہ پی کر رخصت ہوا، مگر اُس کی فکری روشنی نے ایتھنز کے اندھیروں پر برسوں حکومت کی۔ منصور حلاج دار پر لٹک گیا، مگر اُس کی صداقت کی گونج صدیوں تک فضا میں معلق رہی۔ اصل رہنما وہ ہوتا ہے جس کی آواز وقت کے پار جا کر بھی ضمیر کی دیواروں پر دستک دیتی رہے۔ مرنے کے بعد بھی اُس کا کام، اُس کی دی ہوئی فکری تربیت، اُس کی کھودی ہوئی راہ یہ سب مل کر اُس کی غیر موجودگی کو ایک نئی صورت میں موجود رکھ دیتے ہیں۔ ایک سچا رہنما اپنے ہمسفروں کو نظریاتی تنہائی کا شکار نہیں ہونے دیتا،
وہ اپنی زندگی میں راستہ دکھاتا ہے اور اپنی موت کے بعد راستے میں روشنی چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لیے زندہ رہنما ہجوم کو چلاتے ہیں، مگر مرحوم رہنما نسلوں کو بناتے ہیں۔ وہ جسم سے رخصت ہوتے ہیں مگر فکر سے نہیں، اور یہی وہ لمحہ ہے جب تابع ہونا بندہپرستی نہیں رہتا یہ اخلاقی وابستگی، تاریخی تسلسل، اور اجتماعی شعور کا عہد بن جاتا ہے۔ اُستادِ قبلہ کی خالص، معصوم اور بے داغ قربانی صرف ایک شخص کا جذبہ نہیں تھی، وہ ایک ایسے فکری اصول کی تشکیل تھی جو رہنماؤں کے جسمانی وجود سے بہت آگے جا کر زندہ رہتے ہیں۔ بعض لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر اُن کے کردار کی روشنی تاریخ کے ماتھے پر نقش ہو جاتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے گمشدہ ستاروں کی روشنی برسوں بعد ہم تک پہنچتی ہے۔
قیادت کا اصل جوہر بھی یہی ہے کہ رہنما اپنی ذات کو مِٹاتا ہے تاکہ اُس کا راستہ زندہ رہے۔ یہی وجہ تھی کہ اُستادِ قبلہ نے کبھی اپنی شخصیت کو مرکز نہیں بنایا، وہ جانتے تھے کہ جب قیادت فرد پر مرکوز ہو جائے تو اُس فرد کے مرنے کے ساتھ تحریک بھی مر جاتی ہے۔ اُن کی معصوم قربانی دراصل اُس بڑے اصول کی بازگشت تھی کہ آزادی کے راستے پر چلنے والے اپنے نام سے نہیں، اپنے عمل سے پہچانے جاتے ہیں۔
ایک طرف وہ ہمارے لیے چراغ تھے، دوسری طرف خود ایسے درخت جن کی جڑیں ہم سب کی اجتماعی زمین میں پیوست ہیں۔ یہی تعلق ہَمصف اور رہنما کا اصل رشتہ ہے کہ جسمانی فاصلہ جتنا بھی بڑھ جائے، راستے میں رکھی گئی اُن کی نشانیاں کبھی مدھم نہیں ہوتیں۔ آج بھی جب ہم اُن کے راستے پر ایک قدم رکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ کہیں قریب ہی اپنی مخصوص خاموش، پُرعزم مسکراہٹ کے ساتھ ہماری رفتار کو ٹھیک کر رہے ہوں۔ اُن کی قربانی ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ تحریکیں اُن ہاتھوں سے نہیں ٹوٹتیں جو جسم میں خاک ہو جاتے ہیں، بلکہ اُن آنکھوں سے ٹوٹتی ہیں جو خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے ہَمصف اُن کی عدم موجودگی کو ماتم نہیں بناتے بلکہ ایک مسلسل ذمہ داری سمجھ کر اٹھاتے ہیں کیونکہ اُستادِ قبلہ نے ہمیں اپنے ہونے کے بجائے اپنے مقصد کا وارث بنایا تھا۔ بندہ پرستی سے ہٹ کر، کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر میں اُس دن وہاں موجود ہوتی بابر کے ساتھ کھڑی، اور ہم دونوں اپنے جسموں کو اُن کے لیے ڈھال بنا دیتے، خود کو مٹا دیتے تو کیا وہ بچ جاتے؟
یہ سوال صرف جذبات نہیں، ایک پوری تاریخ کا زخمی وجدان ہے۔ مگر پھر میں خود کو ٹوکتی ہوں کہ تحریکیں جسموں کی قربانی کے ساتھ، اصولوں کی پائیداری سے چلتی ہیں۔ وہ رہنما، جنہوں نے اپنی ذات کو مقصد کے سامنے مٹا دیا، کبھی اس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ کون اُن کے لیے ڈھال بنا، کون اُن کے لیے فنا ہوا۔ اُن کی حفاظت ہماری ہڈیاں نہیں، ہماری فکری وابستگی کرتی ہے۔ شاید میں اُس دن بھی کچھ نہ کر پاتی، شاید تاریخ پھر بھی اسی موڑ پر آتی کیونکہ اصل جنگ جسموں پر نہیں تھی نظریے پر تھی۔ اور نظریہ اسی وقت زندہ رہتا ہے جب ہَمصف اپنی جان دینے کے خیال سے زیادہ، راستہ چلانے کے عزم پر یقین رکھیں۔ یہی سوچ مجھے واپس اصل سوال تک لے آتی ہے کہ وہ بچ جاتے یا نہیں اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم اُن کے مقصد کو بچا سکے؟ اور اسی سوال کا بوجھ آج بھی میری تحریر کے ہر صفحے، میری سانس کے ہر وقفے پر رکھا ہوا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































