بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ خضدار شہر سے فرزانہ بنت محمد بخش زہری نامی خاتون کو گزشتہ شب پاکستانی فورسز (سی ٹی ڈی) نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔ لواحقین نے ان کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی طرح گزشتہ رات کوئٹہ کے علاقے جان محمد روڈ سے ایک نوجوان طالب علم ہلال داد کو گرفتار کرنے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔ ہلال داد کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے نزرآباد سے ہے اور وہ تعلیم کے سلسلے میں کوئٹہ میں مقیم تھے۔
ہلال داد بلوچی زبان کے نوجوان شاعر بھی ہیں اور طلبہ حلقوں میں اپنی ادبی سرگرمیوں کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔ اہل خانہ نے ان کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ ہلال داد کی خیریت کے بارے میں سخت پریشان ہیں اور متعلقہ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ معاملے کا فوری نوٹس لے کر نوجوان کی تلاش کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
علاوہ ازیں، پسنی کے ایک ماہی گیر قاسم ولد نبی بخش کو، عینی شاہدین کے مطابق، پاکستانی فوج نے بھرے بازار سے گرفتار کرنے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا۔
مقامی ذرائع اور اہل خانہ کے مطابق قاسم، جو وارڈ نمبر 3 پسنی کے رہائشی ہیں، آٹھ دن سمندر میں شکار کے بعد منگل کی صبح ساحل پر واپس پہنچے۔ تقریباً صبح 9 بجے وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ناشتہ خریدنے اور اپنے دوست کی آنکھوں کے معائنے کے لیے ہسپتال جانے کی غرض سے مرکزی بازار پہنچے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے پسنی کے مرکزی بازار میں بس اسٹینڈ کے قریب ایک میڈیکل اسٹور کے سامنے ادویات خریدتے وقت قاسم کو حراست میں لیا۔
گرفتاری کے بعد سے اہل خانہ کو قاسم کی صحت، حالت اور موجودگی کے مقام کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
اہل خانہ کے مطابق قاسم ایک پیشہ ور ماہی گیر ہیں اور اکثر طویل عرصے تک سمندر میں رہ کر شکار کرتے ہیں۔ انہوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا کہ قاسم کا موبائل فون مسلسل آن لائن آرہا ہے، جو اس شبہے کو مزید تقویت دیتا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں۔
اہل خانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر پاکستانی فوج یا کسی ریاستی ادارے کو قاسم کے خلاف کوئی الزام یا مقدمہ ہے تو ان کی گرفتاری کو باضابطہ ظاہر کیا جائے اور انہیں قانونی طریقہ کار کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے۔ خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس غیرقانونی گرفتاری اور جبری گمشدگی پر خاموش نہیں رہیں گے اور قاسم کی بازیابی تک ہر قانونی و پُرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔
مقامی انسانی حقوق کے کارکنان نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے سلسلے کا حصہ قرار دیا ہے۔
کراچی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، نبیل بلوچ ولد عبدالغنی سکنہ سرگوات کلری لیاری کو 29 نومبر 2025 کو پاکستانی فورسز نے ماڑی پور روڈ پر دعا ہوٹل کے سامنے صبح آٹھ بجے جبری طور پر لاپتہ کیا۔
لواحقین کے مطابق نبیل بلوچ پیشے کے لحاظ سے سیکورٹی گارڈ ہیں اور کسی بھی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔
اہل خانہ نے نبیل بلوچ کی جلد از جلد بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس اذیت ناک صورتحال سے نکالا جائے۔
















































