پاکستانی فورسز نے ایک اور بلوچ خاتون کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے آج ایک گھر پر چھاپہ مار کر وہاں موجود ایک خاتون کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
حالیہ دنوں حب چوکی سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والی یہ دوسری بلوچ خاتون ہیں، اس سے قبل 22 نومبر کو 15 سالہ نسرین بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، جو تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکیں۔
تفصیلات کے مطابق آج جمعرات کی شام کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور ان کے ہمراہ موجود پاکستانی فورسز نے حب چوکی کے علاقے دارو ہوٹل، زہری گھوٹ میں چھاپہ مارتے ہوئے ایک خاتون کو گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز کی حراست کے بعد لاپتہ ہونے والی خاتون کی شناخت ہاجرہ بلوچ کے نام سے ہوئی ہے، جو ثناء اللہ نامی شخص کی اہلیہ ہیں۔
لواحقین کے مطابق خاتون کی حراست کے بعد ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں، جس کے باعث اہلِ خانہ شدید تشویش اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔
یاد رہے کہ 22 نومبر 2025 کو آواران کی رہائشی نسرینہ بلوچ بنت دلاور کو بھی حب چوکی کے اسی علاقے سے پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔
نسرین بلوچ کے لواحقین نے آج ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایف سی اور سول لباس میں ملبوس اہلکاروں نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر نسرین بلوچ کو اپنے ساتھ لے گئے، 27 دن گزر جانے کے باوجود نسرین بلوچ تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکیں ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں حالیہ دنوں میں خواتین کو بھی بڑی تعداد میں لاپتہ کیا جا رہا ہے۔
رواں ماہ کی یکم تاریخ کو خضدار سے فرزانہ نامی خاتون اور دالبندین سے رحیمہ نامی بلوچ خاتون کو ان کے بھائی کے ہمراہ پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا جو بازیاب نہیں ہوسکے۔
اسی طرح رواں سال مئی میں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والی بلوچ طالبہ ماہ جبین بلوچ بھی تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے نہ رکنے والے واقعات اور خصوصاً خواتین کی جبری گمشدگیوں میں اضافے پر سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک خطرناک رجحان قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں نے پاکستانی حکام سے بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے خاتمے، لاپتہ افراد کو منظرِ عام پر لانے اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔


















































