بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے مستونگ، مند اور کوئٹہ میں تین مختلف حملوں کے دوران قابض پاکستانی فوج کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا۔ تینوں کارروائیوں میں قابض فوج کے گیارہ اہلکار ہلاک اور ایک اہلکار کو زندہ حراست میں لیا گیا۔ مختلف کارروائیوں کے دوران بلوچ لبریشن آرمی کے تین سرمچار قاسم ارمان بلوچ عرف الماس، داد خدا مری عرف ریحان اور ازیفہ بلوچ عرف گنجل جام شہادت نوش کرگئے۔
انہوں نے کہاکہ سات دسمبر کو مستونگ کے علاقے دشت میں زہری گٹ کے مقام پر سرمچاروں نے دشمن اہلکاروں پر اس وقت گھات لگا کر حملہ کیا جب وہ مقامی بستی کی جانب پیش قدمی کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کارروائی میں قابض فوج کے آٹھ اہلکار موقع پر ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ سرمچار دشمن کے ایک اہلکار سپاہی ظفر اللہ ولد جھنڈا خان کو حراست میں لینے میں کامیاب ہوگئے۔ حملے کے دوران دشمن نے ہیلی کاپٹروں، کواڈ کاپٹروں اور سرویلنس سسٹم کا استعمال کیا لیکن سرمچاروں نے بھرپور حکمت عملی کے ساتھ دشمن کے دو کواڈ کاپٹر اور ایک سرویلنس کیمرے کو مار گرایا۔ یہ جھڑپ دو گھنٹوں سے زائد جاری رہی جس میں سرمچار داد خدا مری عرف ریحان شدید زخمی ہوئے۔ ساتھیوں نے انہیں محفوظ مقام تک منتقل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ شہید ہوگئے۔
ترجمان نے کہاکہ اسی روز بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے کیچ کے علاقے مند میں قابض فوج کے مرکزی کیمپ اور کرنل رینک کے افسر کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا۔ سرمچاروں نے مرکزی گیٹ، حفاظتی چوکیوں اور اندرونی پوزیشنز پر راکٹ لانچر اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس کارروائی میں قابض فوج کے تین اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے جبکہ دشمن کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ دشمن کی جانب سے استعمال کیے گئے کواڈ کاپٹر اور کیمرے کو بھی سرمچاروں نے ناکارہ بنا دیا۔ گزشتہ شب کوئٹہ شہر میں زراعت کالونی کے قریب سرمچاروں نے دشمن کی ایک چیک پوسٹ کو دستی حملے کا نشانہ بنایا جس سے قابض فوج کو خاطر خواہ نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہاکہ ان کارروائیوں کے دوران شہادت پانے والے سرمچار اپنی زندگیوں میں بھی جدوجہد، نظم اور نظریاتی وابستگی کے امین تھے۔ داد خدا مری عرف ریحان ولد یار محمد مری ہرنائی کے علاقے پوڑ سے تعلق رکھتے تھے۔ 2022 میں بی ایل اے میں شمولیت کے بعد انہوں نے بولان، کوئٹہ اور مستونگ کے محاذوں پر اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ شہید سنگت چاکر مری عرف پردیسی اور جبری گمشدگی کے بعد شہید کیئے گئے عظیم خان مری کے بھائی تھے۔ ریحان مری ایک نڈر، تیز فہم اور جنگی حکمت عملی میں غیر معمولی بصیرت رکھنے والے ساتھی تھے۔ ان کے خاندان کے چھ افراد 2018 میں دشمن کی جارحیت کے دوران شہید کیئے گئے جن میں دو خواتین اور تین معصوم بچے شامل تھے، لیکن اس سنگین المیے کے باوجود وہ ایک لمحے کے لئے بھی آزادی کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ریحان مری نے مختلف محاذوں پر دشمن کو کاری ضربیں پہنچائیں اور اپنے ساتھیوں کیلئے حوصلے اور نظریاتی استقامت کی علامت بنے رہے۔
ترجمان نے کہاکہ سرمچار ازیفہ بلوچ عرف گنجل ولد عبدالحمید کا تعلق جیونی، کوثرا سے تھا۔ وہ ایک سال سے بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ تھے اور اپنی کم عمری کے باوجود غیر معمولی نظم و ضبط اور ذمہ داری کے ساتھ فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ 16 نومبر 2025 کو کیلکور کے محاذ پر فرض کی ادائیگی کے دوران سانپ کے کاٹنے سے زخمی ہوئے اور ابتدائی طبی امداد کے باوجود چند گھنٹوں میں شہید ہوگئے۔ وہ نرم گفتار، باوقار اور خاموشی سے مگر اعلیٰ معیار کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی تھے۔ ان کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ بلوچ سرمچار دشمن کی گولی ہی نہیں بلکہ ہر کٹھن حالت میں بھی اپنی جان وطن کیلئے وقف کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
مزید کہاکہ سرمچار قاسم ارمان بلوچ عرف الماس ولد ماسٹر سدیر تربت کے علاقے آبسر کے رہائشی تھے جبکہ ان کا بنیادی تعلق شاپک سے تھا۔ وہ ایک ذہین، تعلیم یافتہ اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نوجوان تھے۔ آپ لٹریچر میں بی ایس کے طالب علم تھے۔ آپ انقلابی ادب کی تخلیق، نظریاتی گفتگو اور مزاحمتی شعور کی ترویج میں ہمیشہ سرگرم رہے۔ سیاسی حوالے سے، دوران تعلیم وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں متحرک رہے اور بعدازاں 2023 میں بلوچ لبریشن آرمی میں شامل ہوئے جہاں انہوں نے شہری اور پہاڑی دونوں محاذوں پر ذمہ داریاں نبھائیں۔ شہادت کے وقت الماس بلوچ بی ایل اے کے انٹیلی جنس ونگ زراب سے وابستہ تھے، جہاں انہوں نے مختصر مدت میں غیر معمولی ذمہ داری، گہری سوچ اور تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ آپ ایک ایک ناگہانی حادثے کے باعث 2 دسمبر 2025 کو شہید ہوئے۔ ان کی شہادت بی ایل اے کے فکری محاذ اور انٹیلی جنس ڈھانچے دونوں کیلئے قابلِ محسوس کمی ہے کیونکہ آپ ایک ایسے نوجوان تھے جو جنگی جدوجہد کو نظریاتی گہرائی کے ساتھ سمجھتے اور اسے علم و عمل کے امتزاج سے آگے بڑھانا چاہتے تھے۔
ترجمان نے کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی اپنے تمام شہداء کو سرخ سلام پیش کرتی ہے۔ یہ ساتھی نہ صرف قابض قوتوں کے خلاف عملی مزاحمت کا ہراول دستہ تھے بلکہ نظریاتی طور پر بھی اس جدوجہد کی مضبوط اینٹیں تھے۔ ان کی قربانیاں اس بات کا اعلان ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اپنے فرزندوں کی استقامت، شعور اور خون کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ آخر میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی قابض ریاست کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی۔ جب تک دشمن ہماری سرزمین پر موجود ہے ہماری مزاحمت برقرار رہے گی اور ہماری صفوں میں شامل ہر سرمچار اپنے سے پہلے گرنے والے ساتھیوں کے مشن کو آگے بڑھاتا رہے گا۔ بلوچ قوم کی آزادی ایک ناگزیر حقیقت ہے اور بی ایل اے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس منزل کیلئے جدوجہد جاری رکھے گی۔
















































