تھیلیسیمیا آگاہی اور علاج (حصہ سوئم) – پری گل

2

تھیلیسیمیا آگاہی اور علاج

تحریر: پری گل

دی بلوچستان پوسٹ

تھیلیسیمیا کے مریض یا اس کے خاندانوں نے دو علاج ضرور سنے ہونگے: ایک کسی ٹی وی چینل کا چھوٹا سا کلپ جس میں خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ تھیلیسیمیا کا علاج اب ممکن ہے اور ایک دوا کا ذکر ہوتا ہے؛ دوسرا پشاور کا مشہور ڈاکٹر۔

تھیلیسیمیا کوئی ایسی بیماری نہیں جو ایک صحت مند انسان کو پیدائش کے بعد متاثر کرے، کچھ دواؤں سے آسانی سے ختم ہو، کسی خاص عمر کے بعد خود ہی ٹھیک ہو جائے یا کسی ملا سے دم کرا کے گلے میں پیاز لٹکانے سے خود کو تسلی دی جائے؛ بلکہ یہ خون کی پیدائشی معذوری ہے۔ مستقبل میں ممکنہ علاج آجائے تو بھی فی الحال ایسا کوئی علاج دنیا کے کسی ملک میں موجود نہیں۔

ٹی وی کلپ میں بتائی جانے والی دوا پاکستان میں بیٹا (beta) تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو خون بڑھانے اور انتقال خون کم از کم کروانے کے لیے استعمال ہوتی ہے؛ یہ پریکٹس 1998ء سے چل رہی ہے۔ کوئی نیا علاج نہیں بلکہ یہ دوا خون کی دوسری بیماریوں میں استعمال ہوتی ہے؛ لیکن خون کے ہر مریض کے لیے نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں لوگ ٹی وی کلپ سے بھی علاج شروع کر دیتے ہیں۔ یہ دوا پاکستان میں آسانی سے دستیاب نہیں اور اسمگلنگ کے ذریعے بھی پہنچتی ہے، جن کے درجہ حرارت اور ماحول کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

میرے بچے کا ٹرانسفیوژن سے پہلے ایک ٹیسٹ ہوا تھا جس میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ دوا آپ کے بچے پر کام نہیں کرے گی؛ اس کے باوجود جس ہسپتال سے ٹیسٹ ہوا تھا اسی کے لیے یہ دوا بچے کو لکھ کر دی اور کہا “آپ ٹرائی کر سکتی ہیں”۔ میں نے “ٹرائی” بھی کی جس پر میرے 4 ماہ کے بچے کو دست اور الٹیاں شروع ہوئیں اور رنگ پیلا پڑ گیا۔

بلوچستان کے تھیلیسیمیا کے مریض اکثر کراچی کے دو تین نجی ہسپتالوں میں علاج کے لیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے ایک ہسپتال کے کسی ڈاکٹر نے هیڈیراکسی یوریا کے متعلق بتایا کہ یہ تھیلیسیمیا میجر میں استعمال نہیں کرتے؛ جبکہ باقی دو ہسپتال 27 سال سے اسے “ٹرائی” کر رہے ہیں، جس سے کسی ایک بچے کا علاج بھی نہیں ہوا۔ مریض مختلف ڈاکٹروں کے پاس جاتے اور ایک سے دوسرے کی دواؤں کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ خون کی عمر بڑھانے کے چکر میں بھی مریض کی حالت بگڑ جاتی ہے کیونکہ ٹرانسفیوژن وقت پر نہیں ہوتی۔

دوسرا علاج پشاور کا ڈاکٹر، اس ڈاکٹر کا نام و پتا مجھے نہیں ملا، البتہ لِیلیٹ جھلک مجھے کہیں سے مل گئی تھی جسے میں نے خون کے ایک ماہر ڈاکٹر کو بھیج دی انہوں نے بتایا کہ یہ دوائیں جو یہ پشاوری ڈاکٹر استعمال کرتے ہیں عام طور پر خون کے کینسر کے علاج میں استعمال کی جاتی ہیں اور ان کا طویل مدت تک استعمال انتہائی خطرناک ہے۔ یہ دوا بھی کچھ برسوں سے حکومت کی منظوری کے بغیر استعمال ہورہی ہے۔ ایک ماں سے سوال کیا “ایسی دوا جسے دنیا اب تک علاج نہیں مانتی آپ اپنے بچے پر کیوں آزما رہی ہیں؟” تو ماں نے جواب دیا “بچے نے ویسے بھی مرنا ہے، ہمارے پاس اس کوشش کے علاوہ کوئی راستہ نہیں”۔

پاکستان میں بڑی دوائیں بچوں پر آزمائی جاتی ہیں، ایسے بچوں کی حالت لیبارٹری کے چوہوں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ معلومات اکھٹی کرنا اچھی بات ہے مگر اس حوالے سے ذہنی طور پر خود کو تیار رکھیں کہ جب تک دنیا میں منہ کے ذریعے لینے والی دواؤں پر کوئی مستند خبر نہیں آتی، صبر سے بچے کی دیکھ بھال کریں۔ میں نے تھیلیسیمیا کے 45 سال سے بڑے کئی مریض دیکھے ہیں جو اتنی اچھی حالت میں ہوتے ہیں کہ اگر کیلونے کے بغیر دیکھے جائیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ خون کی بڑی بیماری کے مریض ہیں۔

تھیلیسیمیا کے اب تک دو علاج دنیا میں آچکے ہیں: اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ/بون میرو ٹرانسپلانٹ اور جین تھراپی کے علاج کے بعد خون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ میں باقی ٹرانسپلانٹس کی طرح ایک ڈونر کی ضرورت ہوتی ہے جسے خون کے ٹیسٹ سے معلوم کرایا جا سکتا ہے کہ اس کی جین مریض کی جین سے کتنی ملتی ہے۔ اس میں ڈونر کے جسم سے کوئی عضو نہیں لیا جاتا، نہ ہی ڈونر یا مریض کی کوئی بڑی سرجری ہوتی ہے بلکہ کچھ انجکشن لگا کر ڈونر کے خون میں مخصوص سیل کی مقدار بڑھائی جاتی ہے، پھر یہ سیل خون سے کسی مخصوص مشین سے گزار کر حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ مشین گردوں کے ڈائلاسز مشین سے ملتی جلتی ہے۔ جس سے گزر کر مطلوبہ سیل حاصل کرنے کے بعد باقی خون ڈونر کے جسم میں دوبارہ چلا جاتا ہے۔ ڈونر کو ایک عام کینولے سے ذرا مختلف سوئی کی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اور چار سے پانچ گھنٹے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس دوران ڈونر اگر یہ وقت برداشت کر سکے تو بے ہوش کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی جبکہ مریض کو نہ بے ہوش کیا جاتا ہے نہ زیادہ وقت درکار ہوتا ہے بلکہ عام خون کی طرح لگ دیا جاتا ہے۔

اہم باتیں ٹرانسپلانٹ سے پہلے بچے کا آئرن لیول زیادہ نہ ہو کہنا، اسے کسی اور بیماری جیسے جِگر، گردے وغیرہ کے مسائل نہ ہوں، اور چند دیگر معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ ٹرانسپلانٹ کے عمل کے دوران کیمو تھراپی کا عمل، اس کے اثرات، اور مریض کے جسم کا ڈونر سیل قبول نہ کرنے اور سیلز کے آپس میں جنگ (Graft versus Host Disease) جیسے مسائل ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ آسان لیکن انتہائی پیچیدہ عمل ہے جس کے نتائج ایک یا دو سال تک دیکھنے پڑتے ہیں۔ اس دوران مریض کی حالت انتہائینازک ہوتی ہے اور اسے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرانسپلانٹ کی تمام مشکلات میں ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ٹرانسپلانٹ کے بعد اچھی نگہداشت موجود نہیں۔ کچھ دوائیں جو ٹرانسپلانٹ کے بعد ضروری ہوتی ہیں وہ تک موجود نہیں۔ ہم نے اپنے بچے کے ٹرانسپلانٹ کے بعد جو مشکلات دیکھیں، ان کے ذکر کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے چند ہسپتالوں میں اسٹم سیل ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔ جن کی تھیلیسیمیا کے معاملے میں کامیابی کے تناسب کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں۔ بلوچستان میں حکومتی سطح پر اس کا کوئی انتظام نہیں، البتہ حکومت بلوچستان کراچی کے دو تین نجی ہسپتالوں میں صرف سرکاری ملازمین کے ٹرانسپلانٹ کے ہسپتال میں پروسیجر کے اخراجات اٹھاتی ہے۔ اس کے صرف پروسیجر کا خرچہ پچاس لاکھ کے قریب ہوتا ہے۔
آجکل جین تھراپی کے نام سے ایک علاج متعارف ہُوا ہے جو پاکستان میں فی الحال موجود نہیں۔ یہ تھیلیسیمیا کے علاج میں ایک اہم پیش رفت ہے؛ اگرچہ طریقہ علاج آسان نہیں لیکن اسٹیم سیل یا بون میرو ٹرانسپلانٹ کی نسبت تھیلیسیمیا کے مریض کے لیے یہ سہولت موجود ہے، جس میں اسے کسی ڈونر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جین تھراپی ایک جدید علاج ہے، چند ممالک نے اس کی اجازت دے دی ہے مگر فی الوقت اخراجات اکثر عوامی دسترس سے باہر ہیں۔ وہ ممالک یہ علاج اپنے شہریوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک مریض کو خون کا ڈاکٹر، صاف خون اور دوائیں بھی ممکنہ طور پر ملنا ایک مسئلہ ہے؛ شاید ہی کبھی اپنے مریضوں کو ایسی سہولیات فراہم کیے جا سکیں۔ دعا ہے کہ جو بچے تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات آسان کرے اور ان کے علاج کے لیے کوئی راستہ ہموار کرے۔ عوام اپنے خون کے ذریعے ان کی مشکلات کم کریں۔ حکومت انہیں بیماریوں سے پاک، شفاف خون کی ترسیل ممکن بنائے اور ان کی ضروری دوائیں کا انتظام کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔