تھیلیسیمیا آگاہی اور علاج
تحریر: پری گل
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ مضمون میں تھیلیسیمیا کے مریض کی والدہ کے طور پر کچھ مشکلات اور مرض کی ابتدائی علامات جن میں نوے سے ایک سو بیس دن کے دوران رنگ سے سرخی ختم ہونا، بچے کا گردن نہ سنبھال پانا اور بخار کا ذکر کیا تھا۔ درج ذیل پیچیدگیاں جن کا میں ذکر کرنے جارہی ہوں یہ مختلف ہسپتالوں میں مریضوں سے گفتگو اور خون کے ماہر ڈاکٹرز سے لی گئی معلومات کا خلاصہ ہیں۔
ان مشکلات کے ذکر کا مقصد ان لوگوں کو آگاہ کرنا ہے جو ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں تھیلیسیمیا وبا کی شکل اختیار کر رہا ہے، غفلت کا شکار ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ دیکھے ہیں جنہیں تھیلیسیمیا کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم کہ تھیلیسیمیا کے مریض کو ہر ماہ خون کی ضرورت پڑتی ہے۔
خون ملنے یا نہ ملنے دونوں صورتوں میں مریض کن پیچیدگیوں سے گزرتا ہے وہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
وہ بچے جن کے علاقوں میں خون کا انتظام موجود نہیں وہ کسی دوسرے علاقے جاتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اس کا ہمیں تصور ضرور کرنا چاہیے۔ بچوں کا خون جب کم ہو تو والدین کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایندھن پہ چلنے والی ایسی مشین ہے جس کا ایندھن کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے لیکن کسی مشین کی طرح اسے طویل مدت تک بغیر ایندھن کے نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وہ جاندار ہے اور اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
ہمارے جسم میں خون کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے ہم نہیں سوچتے لیکن ایسے بچوں کے دن گنتے ہیں کہ کہیں خون کی کمی سے مسئلہ نہ ہوجائے۔ اپنے گروپ کا خون ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ والدین اخراجات پورے نہ کر سکنے پر بچوں کو خون نہیں لگا سکتے۔ کچھ اسے تقدیر الہی کہہ کر خون نہ لگوا کر بچے کی موت کا انتظار کرتے ہیں جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کچھ بچے بہت کم ہیموگلوبن کے ساتھ دو تین سال تک زندہ رہ کر ایک دردناک موت تک کا سفر طے کرتے ہیں۔
وقت پر خون نہ ملنے پر مریض کی ہڈیوں پر اتنا دباؤ آتا ہے کہ اس کی شکل بگڑ جاتی ہے جیسے ناک کی ہڈی نہ بڑھنا، ماتھے کی ہڈی باہر کی طرف آنا، جبڑے اور دانتوں کی ہڈیوں کی غیر معمولی ہیئت چھوٹے سے جسم پر بہت بڑے اندرونی دباؤ کے وہ اثرات ہیں واضح نظر آتے ہیں۔
جسم مطلوبہ خون نہ ملنے پر احتجاج شروع کرتا ہے اور بگڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ جگر اور تلی بری طرح متاثر ہوتے ہیں جس کے سبب پیٹ بڑھ جاتا ہے۔
یہی نہیں ایک عمر کے بعد قد بھی بڑھنا چھوڑ دیتا ہے اور وہ بچے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ان کی بلوغت کا عمل رک جاتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو مستقل نگرانی کے ساتھ ہارمونس کے علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بینائی کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ خون میں پلیٹلٹس کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی وقت جسم کے کسی حصے سے خون نکلنے یا زخم لگنے پر خون نہ رکنے کا سنگین مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ملیریا یا ڈینگی جیسی بیماریوں میں انہیں عام لوگوں سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں خون کی کمی کے باعث بڑے ہسپتال بھی ہیموگلوبن پر رکھ کر خون لگاتے ہیں جو ہڈیوں پر دباؤ کا سبب بنتا ہے لیکن ڈونرز اور سہولیات کی کمی کے سبب اسی طرح گزارہ کیا جاتا ہے۔ بڑے شہروں کے ہسپتالوں اور تھیلیسیمیا سنٹرز میں سو سے چار ہزار رجسٹرڈ مریض موجود ہیں جن کے لیے خون کا انتظام ایک مسئلہ ہے۔ ہسپتالوں میں کچھ ایسے مریض بھی دیکھے جن کے والدین مجبوریوں کے سبب انہیں 6 مہینے بعد خون لگاتے تھے ایسے لاچار والدین جو نہ بچے کو زندہ رکھنے کا خرچ اٹھا سکتے ہیں نہ اپنی آنکھوں سے اس کی موت دیکھ سکتے ہیں۔ یہ خون نہ ملنے والی مشکلات ہیں۔
خون مل جانے پر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا جہاں عام لوگوں میں آئرن کی کمی خون کی کمی کا سبب بنتی ہے وہیں آئرن زیادہ ہونا تھیلیسیمیا کے مرض میں خون ملنے پر سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تھیلیسیمیا کے مرض میں خون کے سرخ خلیوں کی عمر کم ہوتی ہے، اب تک کوئی ایسی ٹیکنالوجی نہیں آئی جو خون کے سرخ خلیوں (red blood cells) اور آئرن کو الگ کرسکے تو جو خون مریض کو لگایا جاتا ہے اس میں آئرن بھی جسم میں داخل ہوجاتا ہے جس کا نکالنا آسان نہیں۔ صحت مند جسم میں آئرن کی مقدار ڈھائی سو کے قریب ہوتی ہے جبکہ تھیلیسیمیا کے مریضوں میں آئرن جسم سے نہ نکلنے پر یہ دس ہزار سے اوپر جا کر بچے کے دل دماغ جگر گردوں اور مختلف اعضاء میں زنگ کی طرح جمع ہو کر اس کی موت کا سبب بنتی ہے۔
جس طرح خون نہ ملنے پر شکل بدلتی ہے اسی طرح خون ملنے اور آئرن جسم نہ نکلنے پر جلد کی رنگت بدل جاتی ہے۔ زیادہ آئرن جلد کا رنگ بھی بدل دیتا ہے۔
خون سے آئرن نکالنے کے لیے دو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں کم تکلیف دہ پوری زندگی روزانہ مطلوبہ مقدار میں منہ کے ذریعے دواؤں کا استعمال ہے جو عموماً دو سال کے بچے سے شروع کی جاتی ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ گولیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک مریض نے بتایا تھا کہ اسے دن میں 12 گولیاں تجویز کی گئی تھیں۔ چھوٹے سے بچے کو روزانہ نھار منہ دوا دینا ایک بہت مشکل کام ہے، کبھی وہ انکار کرتے ہیں، کبھی دوا کی الٹی کردیتے ہیں، کبھی کسی اور بیماری کے سبب دوا روکنی پڑتی ہے اور کبھی انہی دواوں کے ضمنی اثرات (side effects) کے سبب دوا روکنی پڑتی ہے۔
آئرن بہت زیادہ ہونے پر آئی وی یعنی ڈرپ کے ذریعے آئرن نکالا جاتا ہے۔ ایک تھیلیسیمیا سنٹر میں مختلف بچوں سے بات چیت کی تو پتہ چلا کچھ بچے ہفتے کے 5 دن صبح سات سے شام 7 بجے تک سنٹر میں آئرن نکالنے کی ڈرپ لگوانے آتے ہیں اور گھر جا کر اور اپنے پیٹ پر اور خود سوئی لگاتے ہیں۔ بچوں نے بتایا یہ سوئی ایک چھوٹے سی مشین کے ساتھ لگی ہوتی ہے جس میں دوا ہوتی ہے اسے عام زبان میں پمپ کہتے ہیں۔ یہ پمپ رات 10 بجے کے قریب لگاتے ہیں جو کہ صبح 4 بجے ختم ہوتی ہے۔ یعنی 24 گھنٹوں میں وہ 16 سے 18 گھنٹے جسم میں چبھتی سوئیوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ یہ عمل ہر کچھ عرصے بعد دو تین مہینے تک چلتا ہے۔ یہ طریقہ علاج بھی صرف بڑے شہروں میں موجود ہے۔ بلوچستان میں صرف کوئٹہ کے ایک دو ہسپتالوں میں (میرے علم میں نہیں) شاید موجود ہو۔
گولیوں کی قیمتیں بھی پاکستان میں عام آدمی کے بس کی بات نہیں، یہ مہنگی گولیاں بلوچستان میں صرف ایک میڈیکل اسٹور سے کبھی کبھار مل جاتی تھیں، کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ چند دواخانوں سے ملتی تھی اور کبھی کبھار وہاں سے بھی نہیں ملتی تھی۔ ایک ہفتے پہلے مجھ سے تھیلیسیمیا کی دو ماؤں نے رابطہ کیا جنہیں دو مختلف گولیاں نہیں مل رہی تھیں، ایک کا تعلق نوشکی سے تھا اور وہ کراچی جبکہ دوسری کا تعلق کشمیر سے تھا، راولپنڈی سے گولیاں لیتی تھیں۔ ان دو بڑے شہروں میں انہیں ڈیفراسیراکس (deferasirox) اور ڈیفریپیرون (deferiprone) کی گولیاں نہیں مل رہی تھیں۔ دونوں مائیں شدید پریشان تھیں۔ یہ پڑھی لکھی مائیں تھیں جو وقت پر دوا نہ ملنے پر بیماری کی پیچیدگی سے واقف ہیں اور اس کا خرچہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دونوں سات سال کی بچیوں کے والدین دوسرے شہروں سے گولیوں کا انتظام کرتے ہیں۔ اس بیماری کی تکلیف کسی کی مالی حالت یا تعلیم نہیں دیکھتی، بچوں کی تکالیف ہر طبقے میں یکساں ہیں۔
تھیلیسیمیا کے مریض ہمارے میں سب کی ذمہ داری ہیں۔ محکمہ صحت پر ان کے دواؤں کے انتظام پر دباؤ کی ضرورت ہے، یہ دوائیں ان کا علاج نہیں لیکن ان کے آئرن کا مسئلہ کم کر کے ان کی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں۔ صحت مند انسان اپنے خون کے عطیہ کے ذریعے ان کی ایک مشکل کم کر سکتے ہیں۔ یہ بچے صحت مند خون سے چلتے ہیں اور اس کے منتظر رہتے ہیں۔
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































