بیانیے کی جنگ اور لاپتہ انسانوں کا المیہ – بیبگر بلوچ

29

بیانیے کی جنگ اور لاپتہ انسانوں کا المیہ

تحریر: بیبگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، مگر طاقت کی بنیاد وہی بیانیہ ہے۔ آج عالمی طاقتیں یہ جان چکی ہیں کہ جنگیں صرف میزائلوں اور بندوقوں سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ تصور کی دنیا میں تشکیل دیئے گئے اس بیانیے سے جیتی جاتی ہیں جو عوام کے شعور اور خوف کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ طاقتور ریاستوں کے لیے پروپیگنڈا محض ایک ذریعہ نہیں، ایک مستقل ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہر اقدام کو جواز فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان کے حالات بھی اسی عالمی رجحان کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ یہاں سیاسی اختلاف کو دبانا، کمزور طبقات کی آواز پر پہرہ بٹھانا اور مظلوم قوموں کے خلاف طاقت کا استعمال ایک معمول بن چکا ہے۔ اس سب کے پیچھے وہ بیانیہ کارفرما ہے جسے ریاست اپنی ناکامیوں اور زیادتیوں کو چھپانے کے لیے دن رات تراشتی رہتی ہے۔

اگر بلوچستان پر نظر ڈالیں تو بیانیے اور حقیقت کے درمیان فاصلہ بہت واضح دکھائی دیتا ہے۔ حکومتی بیانات اکثر زمینی صورتحال سے میل نہیں کھاتے۔ ایک طرف طاقت اور تشدد کا مسلسل استعمال ہے، اور دوسری طرف ایسی پروپیگنڈا مہمات ہیں جن کا مقصد بلوچ عوام کی جدوجہد کو مشکوک اور بدنام کرنا ہے۔ یوں ایک طرف ظلم روا رکھا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس ظلم کو مصنوعی بیانیوں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں سب سے گمبھیر مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے، ایک ایسا زخم جو نسلوں کو چاٹ رہا ہے۔ دہائیوں پر محیط یہ المیہ آج بھی تازہ ہے، بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، مزدور، طالب علم، یہاں تک کہ خواتین بھی اس اندھیر نگری کا شکار بن رہی ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس نے خوف، بے بسی اور انتظار کی اذیت نہ چھپی ہو۔

ریاستی ادارے اس مسئلے کے وجود سے انکار کرتے آئے ہیں۔ کبھی اسے مبالغہ کہا جاتا ہے، کبھی متاثرین پر الزامات لگا کر حقیقت کو مسخ کیا جاتا ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاستی سطح پر کئی بار غیر رسمی اعترافات سامنے آئے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ یہ ظلم اور جبر ایک تلخ حقیقت ہے، اور اس کی جڑیں طاقت کے ایسے مراکز تک پھیلی ہوئی ہیں جو سیاسی اداروں سے بھی بالا دست ہیں۔

بلوچستان میں زمینی حالات محض رپورٹس کا حصہ نہیں بلکہ دل دہلا دینے والی انسانی کہانیاں ہیں۔ مائیں برسوں اپنے گمشدہ بیٹوں کی تصویریں اٹھائے سردی گرمی میں احتجاج کرتی ہیں۔ بوڑھے والدین عدالتوں اور کیمپوں کے چکر کاٹتے کاٹتے خود بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ کچھ خاندان معاشی طور پر ٹوٹ جاتے ہیں، کچھ ذہنی اذیت میں بکھر جاتے ہیں۔

کئی نوجوان جو محض اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ بھی اسی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ کو تشدد کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشوں کی صورت واپس کیا جاتا ہے۔ خواتین تک کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں، اور ایسے قوانین استعمال کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد صرف خوف اور خاموشی پیدا کرنا ہے۔

ریاست نے میڈیا پر پابندیاں لگا کر، سوشل میڈیا پر مصنوعی بیانیہ تشکیل دے کر، اربوں روپے خرچ کر کے اپنی حکمتِ عملی کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایک سوال اب بھی پوری شدت سے موجود ہے: کیا کوئی بیانیہ ایک ماں کے آنسوؤں کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ کیا ہزاروں گھرانوں کی چیخوں کو پروپیگنڈے کی مٹی میں دفن کیا جا سکتا ہے؟ سچائی کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے کہ اسے دبایا تو جا سکتا ہے، ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اس ظلم کا اعتراف نہیں ہوتا، جب تک انصاف کی راہ ہموار نہیں کی جاتی، تب تک بیانیے کی جنگ تو شاید جیتی جائے، لیکن حقیقت کی جنگ ریاست ہمیشہ ہارتی رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔