بنگلہ دیش میں اسٹوڈنٹ رہنما کی ہلاکت کے بعد پر تشدد مظاہرے

31

جمعرات کی شام کو سرکردہ سیاسی کارکن اور اسٹوڈنٹ رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے اعلان کے فوری بعد ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے دیگر حصوں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین ہادی کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ہادی کا جمعرات کو سنگاپور کے ایک اسپتال میں انتقال ہو گیا تھا۔ 32 سالہ نوجوان رہنما کو 12 دسمبر کے روز موٹر سائیکل پر سوار ایک نقاب پوش شخص نے سر میں گولی ماری تھی اور زخمی ہونے کے بعد بہترین سہولیات کے لیے ان کا سنگاپور میں علاج ہو رہا تھا۔

جیسے ہی ان کی موت کی خبر آئی، ہزاروں مظاہرین ڈھاکہ اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر نکل آئے اور مطالبہ کیا کہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔

ہادی 2024 میں طلبہ کی قیادت والی بغاوت کی سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے، جس نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ کیا اور وہ بھارت فرار ہونے پر مجبور ہوئیں۔

حکام کے مطابق رات میں پر تشدد مظاہروں کے دوران بنگلہ دیشی دارالحکومت میں کئی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔ مظاہروں کے دوران ہادی کا نام لے کر جذباتی نعرے لگائے گئے اور شرکاء نے اپنی تحریک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

مظاہروں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

مظاہرین کے گروپوں نے بنگلہ دیش کے دو سرکردہ اخبارات، بنگالی زبان کے پرتھم الوئی اور انگریزی زبان کے ڈیلی اسٹار کے دفاتر پر دھاوا بول دیا۔

ہجوم نے اخبار کی دو عمارتوں کو آگ لگا دی، جس سے وہاں موجود بہت سے صحافی اور دیگر عملہ اندر پھنس گیا۔ فائر فائٹرز نے سیڑھیوں کا استعمال کرتے ہوئے کئی لوگوں کو بچایا، اور بعد میں احتجاج کے دران ہی فوجی دستے ان عمارتوں کے سامنے تعینات کیے گئے۔

ڈیلی اسٹار کی رپورٹر سائمہ اسلام نے بتایا کہ وہ جلتی ہوئی عمارت کے اندر پھنسی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا، “میں مزید سانس نہیں لے سکتی۔ بہت زیادہ دھواں ہے۔ میں اندر ہوں، تم مجھے مار رہے ہو۔”

بنگلہ دیش میں بھارت کے نائب سفیر کے گھر کو بھی سینکڑوں افراد نے گھیر لیا جو وہاں دھرنے کی شکل میں مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم مقامی خبروں کے مطابق، پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔ بھارتی میڈیا کا دعوی ہے کہ مظاہرین نے سفیر کے گھر کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامہ

مظاہرین نے شمالی شہر راج شاہی میں شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے علاقائی دفتر کو منہدم کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا۔ اس کا فوٹیج ایک نجی نشریاتی ادارے جمنا ٹی وی نے نشر بھی کیا ہے۔

اسی طرح کے مظاہروں کی اطلاعات بندرگاہی شہر چٹگام اور جنوبی شہر کھلنا سے  بھی ملی ہیں۔

دعائیں اور ہفتے کے روز یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔

یونس نے کہا کہ ہادی کا انتقال قوم کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

شریف عثمان ہادی کون تھے اور انہیں گولی کیوں ماری گئی؟

ہادی طلبہ کے احتجاجی گروپ انقلاب منچ کے ایک سینیئر رہنما تھے اور وہ آئندہ برس فروری میں ہونے والے قومی انتخابات میں پارلیمنٹ کی نشست کے لیے حصہ لے رہے تھے۔

انہیں 12 دسمبر کو موٹر سائیکل پر سوار نقاب پوش حملہ آوروں نے اس وقت گولی مار دی جب وہ رکشے پر سوار تھے۔ انہیں رواں ہفتے کے آغاز میں علاج کے لیے سنگاپور کے ایک اسپتال میں ایئرلفٹ کیا گیا تھا لیکن جمعرات کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

سنگاپور کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا، “ڈاکٹرز کی بہترین کوششوں کے باوجود، ہادی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔”

اس نے مزید کہا کہ وہ بنگلہ دیشی حکام کو ان کی میت کو وطن واپس لانے میں مدد کر رہا ہے۔

شریف عثمان ہادی کے قتل کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

بنگلہ دیشی پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے شوٹر اور موٹر سائیکل ڈرائیور دونوں کی شناخت کر لی ہے اور ان کا خیال ہے کہ دونوں مشتبہ افراد غیر قانونی طور پر پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئے ہیں۔

حکام نے ان کی گرفتاری کے لیے معلومات دینے والے کو پانچ ملین ٹکا  یعنی تقریباً  42,000، ڈالر کے انعام کی پیشکش بھی کی ہے۔

عبوری رہنما یونس نے اس فائرنگ کو ایک طاقتور نیٹ ورک کی طرف سے کیا گیا حملہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد فروری کے انتخابات کو پٹری سے اتارنا ہے۔

اپنی ہلاکت سے چند ہفتوں پہلے، ہادی نے کہا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور ساتھ ہی ان کے گھر کو نذر آتش کرنے اور خاندان کے افراد کو ریپ کرنے کی دھمکیاں بھی ملی تھیں۔