بلوچستان میں 78 ہزار آئی بی اوز – ٹی بی پی اداریہ

16

بلوچستان میں 78 ہزار آئی بی اوز – ٹی بی پی اداریہ

چودہ دسمبر کو سنٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں بلوچستان کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور حمزہ شفقات اور ڈی آئی جی کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اعتزاز احمد گواریہ نے پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سال دو ہزار پچیس کے دوران بلوچستان بھر میں 78 ہزار انٹیلی جنس بیسڈ فوجی آپریشن کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیے جانے کو حکومتِ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا، جو سیکیورٹی پالیسی کی درست سمت کی عکاسی کرتی ہے۔

حمزہ شفقات اور اعزاز احمد گواریہ نے اسی بریفنگ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ سیکیورٹی فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر حکمت عملی کے باعث رواں سال آزادی پسند مسلح تنظیموں کے حملوں میں کمی آئی ہے۔ تاہم اس دعوے کے اگلے ہی دن بلوچ لبریشن آرمی کے سو سے زائد مسلح مزاحمت کاروں نے پنجگور شہر پر کنٹرول حاصل کرکے اپنے اہداف پورے کیے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سرکاری بیانات بلوچستان کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں اور محض ریاستی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے دہرائے جا رہے ہیں۔

سال دو ہزار پچیس کے دوران بلوچ مسلح تنظیموں نے پاکستان کے معاشی اور عسکری اہداف پر متعدد بڑے اور مہلک حملے کیے ہیں۔ جنوری میں تربت کے قریب پاکستان فوج کی بسوں کے قافلے پر مجید بریگیڈ کا فدائی حملہ ہوا، جبکہ فروری میں بلوچ لبریشن آرمی نے زہری شہر پر کنٹرول حاصل کرکے لیویز تھانے، بینک اور نادرا آفس کو نذرِ آتش کیا۔ مارچ میں جعفر ایکسپریس کا ہائی جیک ہونا ایک غیر معمولی واقعہ تھا، جس میں پاکستان فوج کو جانی نقصان کے ساتھ عسکری سطح پر تاریخی حزیمت بھی اٹھانی پڑی۔

اسی مہینے نوشکی جبکہ ستمبر میں دشت کے علاقے میں پاکستان فوج کے کانوائے پر مجید بریگیڈ کے فدائین نے ہلاکت خیز حملے کیے۔ مئی میں بلوچ لبریشن آرمی نے سوراب شہر پر کنٹرول حاصل کرکے پولیس کے اسلحے پر قبضہ کیا اور تزوراتی اہمیت کے حامل اس شہر پر کئی گھنٹوں تک اپنی موجودگی برقرار رکھی، جو ریاستی رٹ کے لیے ایک سنجیدہ سوالیہ نشان تھا۔

آگست میں زہری کی تحصیل کئی دنوں تک بلوچ راجی آجوئی سنگر کے مزاحمت کاروں کے کنٹرول میں رہی، جبکہ بلوچستان بھر میں بلوچ راجی آجوئی سنگر نے پاکستان فوج پر ایک سو پچاس سے زائد حملے کیے۔ سال کے آخری مہینوں میں بلوچ لبریشن فرنٹ کی سدو آپریشنل بٹالین نے نوکنڈی میں فرنٹئر کور کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا، جس میں سیندک اور ریکوڈک سے وابستہ غیر ملکی انجینئرز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

سال بھر پاکستان فوج پر ہونے والے یہ مہلک حملے حکومتی دعوؤں کی نفی کرتے ہیں اور بلوچ مسلح تنظیموں کی بڑھتی ہوئی آپریشنل صلاحیتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں بلوچستان کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی، جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کی کارروائیوں میں نہ صرف شدت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اہداف کے انتخاب اور حکمت عملی میں بھی واضح جدت پسندی دکھائی دیتی ہے۔