میڈیا کے نگران ادارے فریڈم نیٹ ورک نے ایک نئی تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کو مختلف اطراف سے دباؤ، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا ہے۔
پریس فریڈم کی صورتحال، معلومات تک رسائی اور صحافیوں و میڈیا پروفیشنلز کی سلامتی اور پیش رفت کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بلوچستان میں میڈیا کی مجموعی صورتحال، اظہارِ رائے کی آزادی کو درپیش خطرات، سروس اسٹرکچر، صنفی عدم مساوات، قانونی مقدمات، صحافت کو درپیش قانونی چیلنجز، سنسر شپ، ہراسانی، دھمکیاں اور ملازمتوں سے برطرفیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ان علاقائی رپورٹس کا تسلسل ہے جو فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں پریس فریڈم کی صورتحال اجاگر کرنے کے لیے تیار کرتا رہا ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد میں قائم اس میڈیا واچ ڈاگ نے خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع، سندھ، جنوبی پنجاب، وسطی و شمالی پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر پر تحقیقی رپورٹس جاری کی تھیں۔
رپورٹ کے اجراء کے موقع پر فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ
“بلوچستان میں ہم صحافت کھو چکے ہیں، جہاں سیلف سنسر شپ اور جبری سنسر شپ اس حد تک رائج ہو چکی ہے کہ صحافی کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔”
انہوں نے امید ظاہر کی کہ رپورٹ کے نتائج تمام متعلقہ فریقوں کی توجہ حاصل کریں گے تاکہ صورتحال بہتر بنائی جا سکے اور میڈیا کارکنان اور معاون عملہ محفوظ ہو، تاکہ شہریوں کو قابلِ اعتماد معلومات تک رسائی حاصل ہو سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی، طرزِ حکمرانی، معاشی حالات اور آبادیاتی عوامل نے پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں میڈیا کے ماحول اور صحافیوں کی سلامتی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں معلومات تک رسائی کا ماحول مسلسل محدود رہا ہے، جہاں مقامی میڈیا مالی طور پر کمزور ہے، صوبے کے مسائل قومی میڈیا کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہو پاتے، ڈیجیٹل سہولیات کی کمی ہے اور صحافی ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے دوہری دباؤ کا شکار ہیں۔
ان عوامل کا مجموعی نتیجہ عوامی مفاد کے مسائل کی منظم انداز میں کم کوریج، سیلف سنسر شپ میں اضافہ اور شہریوں کے حقِ معلومات میں مسلسل کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2002 کے بعد پیمرا کے تحت پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا میں تیزی سے توسیع ہوئی، تاہم بلوچستان میں “علاقائی” میڈیا کی موجودگی محدود رہی۔ قومی ٹی وی چینلز اور اخبارات ڈیجیٹل طریقوں کو ترجیح دیتے ہوئے کوئٹہ میں اپنے بیورو مسلسل کم کر رہے ہیں، جبکہ صوبائی دارالحکومت سے باہر کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں زمینی (ٹیریسٹریل) کرنٹ افیئرز کا کوئی ٹی وی چینل موجود نہیں۔ سرکاری ادارے، جیسے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان، زیادہ تر شہری مراکز سے کام کرتے ہیں۔ ان کا کثیر لسانی مینڈیٹ مواد اور رسائی کو پیچیدہ بناتا ہے، جبکہ دور دراز علاقوں تک نشریات اب بھی محدود ہیں۔
پرائیویٹ میڈیا کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں قائم بلوچی زبان کے چینلز خود کو بلوچ ناظرین کے لیے 24 گھنٹے سیٹلائٹ چینلز کے طور پر پیش کرتے ہیں، جن کی رسائی قومی اور بیرونِ ملک مقیم ناظرین تک ہے۔ بلوچستان میں ایف ایم ریڈیو موجود تو ہے، مگر پیمرا کی 35 سے 40 کلومیٹر کوریج کی حد اسے بلوچستان جیسے وسیع اور دشوار گزار صوبے کے لیے غیر مؤثر بناتی ہے۔ پرنٹ میڈیا زیادہ تر کوئٹہ تک محدود ہے اور لاگت، فاصلے اور دیہی علاقوں میں کم شرحِ خواندگی کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔
بلوچستان ڈی جی پی آر کی فہرست میں شامل 120 سے زائد رسائل و جرائد میں سے صرف ایک درجن کے قریب روزنامے ہی حقیقی قارئین رکھتے ہیں۔ بہت سے ادارے قارئین کی خدمت کے بجائے سرکاری اشتہارات حاصل کرنے کے لیے ’ڈمی‘ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ بلوچی اور پشتو اخبارات کی تعداد نہایت کم ہے، اردو اخبارات (آزادی، انتخاب، بلوچستان ایکسپریس، قدرت) غالب ہیں، جبکہ انگریزی اخبارات کی موجودگی انتہائی محدود ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اشتہاری بجٹ تیزی سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی جانب منتقل ہو رہے ہیں اور سرکاری ٹینڈرز (بی پی پی آر اے) آن لائن ہو چکے ہیں، جس کے باعث روایتی پبلشرز کی آمدن کم ہو رہی ہے۔ روایتی اخبارات پر مشتمل ایک نو قائم ڈیجیٹل پبلشرز ایسوسی ایشن (آزادی، بلوچستان ایکسپریس، انتخاب، قدرت اور کوئٹہ وائس) منافع بخش ڈیجیٹل آپریشنز کی طرف منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہے، مگر گزشتہ دو برسوں کے دوران ان اداروں کے بجٹ اور عملے میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2025 کے آغاز پر پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 11 کروڑ 60 لاکھ (45.7 فیصد) تھی، تاہم بلوچستان اس دوڑ میں بہت پیچھے ہے، جہاں انٹرنیٹ کی رسائی صرف 15 فیصد ہے اور صوبے کے 60 فیصد علاقے فائبر کنیکٹیویٹی سے محروم ہیں۔ طویل اور مقامی سطح پر انٹرنیٹ بندشیں، جو بعض اوقات ہفتوں یا مہینوں تک جاری رہتی ہیں (جیسے پنجگور میں مئی 2025 سے اور خضدار میں حملوں کے بعد)، مقامی آبادی کو ڈیجیٹل دنیا سے مزید دور کر دیتی ہیں اور ایک ہی ملک میں دو مختلف ڈیجیٹل حقیقتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
اگرچہ سوشل میڈیا خبروں کے حصول اور ترسیل کے لیے ناگزیر بن چکا ہے، مگر اس کے ساتھ صحافیوں اور سٹیزن رپورٹرز کو نگرانی، مواد ہٹانے کے مطالبات اور انتقامی کارروائیوں کے خطرات بھی لاحق ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بلوچستان میں 40 صحافی قتل ہوئے، جن میں سے تقریباً 30 کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ باقی بم دھماکوں یا دیگر حملوں میں جان سے گئے۔ رپورٹ میں خضدار کو صحافت کے لیے خطرناک ترین اضلاع میں شمار کیا گیا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات کے متاثرین کے لیے معاوضے (مثلاً 40 لاکھ روپے) کی شق تو موجود ہے، مگر حکومت کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود عدم سزا کا رجحان برقرار ہے اور اب تک صحافیوں کے قتل کے کسی مقدمے میں کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی تعداد نہایت کم ہے، جو زیادہ تر کوئٹہ تک محدود ہیں۔ انہیں نقل و حرکت کی پابندیوں، مخاصمانہ فیلڈ حالات، نیوز روم میں صنفی امتیاز، اجرت میں فرق، بنیادی سہولیات کی کمی (ٹرانسپورٹ، واش رومز، بچوں کی نگہداشت) اور ہراسانی جیسے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایڈیٹرز اکثر حفاظت کے نام پر خواتین کو ضلعی اسائنمنٹس دینے سے گریز کرتے ہیں، جس سے صنفی دقیانوسی تصورات مزید مضبوط ہوتے ہیں، جبکہ ان سے بغیر معاونت کے بہتر کارکردگی کی توقع برقرار رہتی ہے۔ خواتین اکثر کیمرے کے پیچھے کام کرتی ہیں یا ان کی تیار کردہ رپورٹس مرد ساتھیوں کی آواز میں نشر کی جاتی ہیں۔



















































