کوئٹہ میں اتوار کے روز انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان کے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورائیہ نے بتایا کہ رواں سال اب تک صوبے کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 78 ہزار انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کارروائیوں میں 707 مسلح افراد ہلاک ہوئے، جبکہ مسلح تنظیموں کی کارروائیوں میں 202 فورسز اہلکار اور 280 شہری بھی ہلاک ہوئے۔
اس پریس کانفرنس میں نجی میڈیا کے کیمرہ مین مدعو نہیں تھے۔ اس کانفرنس میں شریک صحافیوں نے بھی معمول کے مطابق فوری طور پر مندرجات جاری نہیں کیے بلکہ انھیں اس کے لیے کچھ دیر تک انتظار کرنا پڑا۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیاکہ گذشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس بہتر حکمت عملی کے باعث فورسز پر حملے کم ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق رواں برس کی سب سے بڑی کامیابی امریکہ کی جانب سے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینا ہے۔
حمزہ شفقات نے کہا کہ بیرونِ ملک بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کرانے والوں کے خلاف انٹرپول کے ذریعے کارروائیاں کی جائیں گی۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورائیہ نے بتایا کہ اکتوبر میں خاران کے ایس ایچ او کو ہلاک کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے تین مبینہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔
ان کے مطابق شدت پسند ایس ایچ او کو اغوا کر کے پروپیگنڈا کرنا چاہتے تھے، لیکن مزاحمت پر اسے قتل کر دیا گیا۔
انھوں نے دعویٰ کیاکہ اس گروہ کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
واضح رہےکہ پاکستانی حکام کی جانب سے بلوچستان میں بیشتر فوجی آپریشنوں میں مقامی آبادی کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا رہا ہے ۔ حالیہ زہری میں پاکستانی حکام کی جانب سے مسلح افراد کے خلاف آپریشن کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم فضائی کاروائی میں خواتین اور بچے جانبحق ہوئےتھے۔



















































