بدھ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی زیر صدارت انسدادِ دہشت گردی سے متعلق ہونے والے ایک اجلاس میں دعویٰ کیا گیا کہ صوبے کے شمالی علاقوں میں 100 افراد کو مارا جا چکا ہے، جبکہ ضلع کچھی میں 200 سے زائد آپریشنز کیے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں منعقدہ اجلاس میں قومی اور صوبائی ایکشن کمیٹیوں کے طے شدہ اہداف، امن و امان کی مجموعی صورتحال اور جاری سکیورٹی اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ حمزہ شفقات نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف مربوط اور مؤثر کارروائیاں جاری ہیں۔ بریفنگ میں دعویٰ کیا گیا کہ بلوچستان کے شمالی علاقوں میں 100 عسکریت پسندوں کو مارا گیا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ضلع کچھی میں 200 سے زائد آپریشنز کیے گئے جبکہ دیگر اضلاع میں بھی مسلح افراد کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ صوبے میں 3561 غیر قانونی پیٹرول پمپس سیل کر دیے گئے ہیں۔ کسٹم حکام نے گزشتہ تین ماہ کے دوران 2575 آپریشنز کیے اور 416 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ضبط کیں۔ اجلاس کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن کے عمل اور تشکیل شدہ ضوابط پر بھی مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ کارروائیوں کی رفتار مزید تیز کی جائے اور کسی صورت نرمی نہ برتی جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قومی اور صوبائی ایکشن کمیٹیوں کے فیصلوں پر پوری تندہی، ذمہ داری اور تسلسل کے ساتھ عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں حکومتی اور فوجی اداروں کی مسلح آزادی پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران زیرِ حراست جبری لاپتہ افراد سمیت عام شہریوں کو بھی نشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ حالیہ زہری کے واقعے میں بھی مسلح افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا گیا، تاہم ڈرون حملوں میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات نے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
















































